ریکوڈک بلوچستان کے عوام کا ہے اور عوام کا ہی رہے گا ،وزیراعلیٰ بلوچستان،

ریکوڈک سے جو بھی وسائل ملیں گے انہیں صوبے کے عوام کی فلاح و بہود کیلئے خرچ کیا جائے گا، سیندک منصوبے پر ابھی تک صوبے کو اختیار نہیں ملا ہے ، وفاقی حکومت اور چین کے درمیان ہونے والے معاہدے پر تاحال عملدرآمد ہورہا ہے، رائیلٹی میں صرف 2فیصد حصہ مل رہا ہے، باقی وفاقی حکومت اور چین لے جاتے ہیں،اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب

بدھ 21 جنوری 2015 22:49

ریکوڈک بلوچستان کے عوام کا ہے اور عوام کا ہی رہے گا ،وزیراعلیٰ بلوچستان،

اسلام آباد) اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔21جنوری2015ء ) وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ ریکوڈک بلوچستان کے عوام کا ہے اور عوام کا ہی رہے گا ریکوڈک سے جو بھی وسائل ملیں گے انہیں صوبے کے عوام کی فلاح و بہود کیلئے خرچ کیا جائے گا ۔ سیندک منصوبے پر ابھی تک صوبے کو اختیار نہیں ملا ہے اس منصوبے پر وفاقی حکومت اور چین کے درمیان ہونے والے معاہدے پر تاحال عملدرآمد ہورہا ہے انہیں رائیلٹی میں صرف 2فیصد حصہ مل رہا ہے باقی وفاقی حکومت اور چین لے جاتے ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

صوبائی وزراء ڈاکٹر حامد خان اچکزئی ، میر خالد لانگو، عبیدالله بابت، وزیراعلیٰ پالیسی ریفارم یونٹ کے سربراہ ڈاکٹر قیصر بنگالی ، اور ڈاکٹر اسحق بلوچ بھی اس موقع پر موجود تھے۔

(جاری ہے)

پریس کانفرنس کے انعقاد کا مقصد میڈیا کو بلوچستان ڈویلپمنٹ فورم کے انعقاد کے اغراض و مقاصد اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد سے آگاہ کرنا تھا۔وزیراعلیٰ نے بتایا کہ ڈویلپمنٹ فورم کے انعقاد سے صوبے میں ترقیاتی عمل تیز ہوگا اور ڈونرز اداروں کی معاونت سے سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا۔

اس موقع پر پالیسی ریفارم یونٹ کے سربراہ ڈاکٹر قیصر بنگالی نے بتایا کہ ڈویلپمنٹ فورم کے انعقاد کے بعد پانچ دوست ممالک کے سفیروں نے رابطہ کرکے بلوچستان کی ترقی میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے اور اس حوالے سے تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی ہے جبکہ ایک ملک کے سفیر نے بلوچستان آنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اس کے ساتھ ساتھ عالمی بنک اور چھ سرمایہ کار کمپنیوں نے بھی بلوچستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے اس موقع پر مختلف سوالوں کا جواب دیتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم ایک کونفلیکٹ زون میں رہ رہے ہیں اور خطے کی صورتحال کا براہ راست اثر ہم پر پڑتا ہے اس کے باوجود وزیراعلیٰ نے بتایا کہ صوبے میں گذشتہ 18ماہ کی مدت میں امن وامان کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے ۔

مسخ شدہ لاشوں کے ملنے اور لوگوں کے لاپتہ ہونے کے واقعات کے علاوہ اغواء برائے تاوان کی کاروائیوں میں بھی نمایاں کمی آئی ہے انہوں نے کہا کہ صوبے کے 32اضلاع میں سے کوئٹہ سمیت 30اضلاع میں امن وامان کی صورتحال بتدریج بہتر ہورہی ہے تاہم تربت اور پنجگور اضلاع میں صورتحال تسلی بخش نہیں جہاں ملیٹینٹ اپنی کاروائیاں کرتے ہیں ۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ خطے کی صورتحال ہمارے صوبے بالخصوص پشتون علاقوں میں بھی اثر انداز ہورہی ہے جہاں گذشتہ دنوں چندناخوشگوار واقعات رونما ہوئے ہیں اس کے علاوہ ہمیں فرقہ واریت کے حوالے سے بھی مسئلہ درپیش ہے تاہم انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ حکومت کی کاوشوں کے ذریعے صورتحال پر قابو پالیا جائے گا اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے ذریعے صوبے سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ صوبے میں امن وامان کی صورتحال کے حوالے سے سب کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہے بعض عناصر اس پر کھڑی تنقید بھی کرتے ہیں تاہم صورتحال سب کے سامنے ہے اور ہم نے کبھی بھی کچھ نہیں چھپایا ہمارا اپنا نقطہ نظر ہے جو حقیقت پر مبنی ہے کہ صوبے میں امن وامان کی صورتحال گذشتہ سالوں کی نسبت بہتر ہوئی ہے ۔وزیراعلیٰ نے میڈیا پر زور دیا کہ وہ صوبے میں 30اضلاع میں امن وامان کی بہتری کو بھی عوام کے سامنے لائے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ناراض لوگوں سے بات چیت اور رابطوں میں ابھی تک کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہوا تاہم ہم انہیں قومی دھارے میں لانے کی کوشش کررہے ہیں اور آل پارٹی کانفرنس کی جانب سے بھی ہمیں پورا اختیار دیاگیا ہے ہم مصالحتی عمل پر پختہ یقین رکھتے ہوئے اسے آگے بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان ڈویلپمنٹ فورم کا اسلام آباد میں انعقاد کا مقصد غیر ملکی سفارتکاروں ، ڈونرز، دانشوروں، ریسرچ سے وابستہ افراد اور میڈیا کی توجہ بلوچستان کی ترقی اور یہاں کے وسائل کی جانب مبذول کرانا تھاجس میں ہمیں بڑی حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے اور وزیراعظم کے مشکور ہیں جنہوں نے ڈویلپمنٹ فورم میں شرکت کی ۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان ڈویلپمنٹ فورم کے انعقاد کے بعد چار نکاتی ایجنڈہ سامنے آیا ہے جس میں ادارتی ترقی ، حکومتی اداروں کی اصلاح اور ان کی استعداد کار میں اضافہ ، بہتر اور موثر طرز حکمرانی کیلئے نئے اداروں کا قیام ،انسانی وسائل کو ترقی دینے کیلئے عوام کو مختلف شعبوں میں فنی تربیت دینا اور معدنیات ،صنعت، ساحلی ترقی اور دیگر شعبوں میں تیکنیکی اداروں کا قیام شامل ہے انہوں نے کہا کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ترقی یافتہ اور جدید بنیادی ڈھانچے کے بغیر ترقی کا عمل آگے نہیں بڑھایا جاسکتا۔

قدرتی وسائل ہی بلوچستان میں معاشی نمو او رسماجی ترقی کے ضامن ہیں ۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ وسیع رقبے اور منتشر آبادی کیلئے ہمیں کثیر الجہتی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان ملک کا نصف ہے اور بے پناہ ذرخیز اور ہموار زمین کا مالک ہے لیکن سالانہ کئی میلین ایکڑ فٹ پانی ڈیموں کی عدم دستیابی کی وجہ سے ضائع ہوجاتا ہے ، پانی کے ضیاع کو روکنے کیلئے بلوچستان کے 18اہم مقامات پر ڈیمز کی تعمیر ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں 38 لینڈنگ سائٹس کی نشاندہی کی گئی ہے پہلے مرحلے میں 10لینڈنگ سائٹس کو ترقی دی جائے گی انہوں نے کہا کہ بلوچستان ڈویلپمنٹ فورم سے ہم نے یہ پیغام تمام اداروں تک پہنچایا ہے کہ حکومت بلوچستان غربت اور پسماندگی کو ختم کرنے کیلئے پر عزم ہے ہم اچھی طرز حکمرانی کے بنیادی اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے تعلیم ، صحت، اور دیگر شعبوں کو ترقی دیں گے تاکہ کوئی بھی فرد صحت کی سہولتوں ، اور کوئی بھی بچہ سکول جانے سے محروم نہ رہ جائے انہوں نے کہا کہ ہم نے بلوچستان میں شفاف اور کامیاب بلدیاتی انتخابات کرائے اور اگلا مرحلہ 28فروری 2015تک مکمل ہوجائے گا جس سے ترقیاتی عمل میں مزید تیزی اور بہتری آئے گی ۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے آرٹیکل 172(3) کے تناظر میں ہر وفاقی اکائی تیل و گیس کی پیداوار میں مشترکہ اور برابر کی سطح پر شراکت دار ہوگی جس سے بلوچستان مالیاتی طور پر مزید مستحکم ہوگا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ کسی بھی معاشرے میں معاشی اور سماجی ترقی کیلئے پرامن ماحول ترقی کے مساوی مواقع اور بدعنوانی کا خاتمہ ضروری ہے اور ہم نے بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے کئی ایک اقدامات کئے ہیں جن سے وسائل کے صحیح مصرف کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہمیں یقین اور اعتماد ہے کہ مصالحتی عمل کے ذریعے وفاقی حکومت عسکری اداروں اور سیاسی قائدین کے ساتھ مل کر صوبے کے دیرینہ مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔

متعلقہ عنوان :