پاکستان نے حقانی نیٹ ورک پر پابندی عائد کر دی

جمعہ 16 جنوری 2015 20:30

پاکستان نے حقانی نیٹ ورک پر پابندی عائد کر دی

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔16جنوری۔2015ء) امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری کے حالیہ دورہ پاکستان اور وزیرِ اعظم نواز شریف سے ملاقات کے بعد پاکستان کی جانب سے حقانی نیٹ ورک پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ غیرملکی خبر ایجنسی کے مطابق کیری نے اپنے دورے کے دوران پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ افغانستان، ہندوستان، اور امریکا کے مفادات کے لیے خطرہ بننے والے گروپس کے خلاف کارروائی کرے، جس کے بعد یہ فیصلہ سامنے آیا ہے۔

حکومت پاکستان کے سینئر عہدیداران نے رائٹرز کو بتایا کہ پابندی عائد کیے جانے کا باقاعدہ اعلان کچھ ہفتوں میں کر دیا جائے گا۔ امریکی حکام کے مطابق افغانستان میں بڑے حملوں کے پیچھے طاقتور حقانی نیٹ ورک کا ہاتھ ہے، جو پاکستان کے سرحدی علاقوں سے کارروائیاں کرتا ہے۔

(جاری ہے)

امریکا کے مطابق حقانی نیٹ ورک کے پاکستانی ریاست سے بھی روابط ہیں۔ کابینہ کے ایک رکن نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک پر پابندی عائد کرنا پشاور حملے کے بعد بننے والے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے سلسلے میں ایک قدم ہے۔

ان کا اشارہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے طالبان کے حملے کی جانب تھا جس میں دہشتگردوں نے 134 بچوں کو قتل کردیا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت اور فوج عسکریت پسندی کے مسئلے پر ایک ہی موقف رکھتی ہیں، اور اب اچھے اور برے طالبان کی کوئی تفریق نہیں کی جائے گی۔ ان رکن کا کہنا تھا کہ جان کیری نے خاص طور پر حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی پر زور دیا تھا، جس میں گروپ پر پابندی عائد کرنا بھی شامل ہے۔

ایک اور وزیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس بات کی تصدیق کی کہ حقانی نیٹ ورک پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ واضح رہے کہ امریکا کی جانب سے پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کو افغانستان میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے، جب کہ پاکستان اس بات سے انکار کرتا ہے۔ نیٹ ورک پر پابندی کے باقاعدہ اعلان سے امریکا کو یہ پیغام دیا جائے گا کہ حکومت اب اچھے اور برے طالبان کی تفریق ختم کرچکی ہے۔

لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا پابندی عائد کرنے کا مطلب کارروائی کرنا ہوگا یا نہیں۔ حکومتی حلقوں میں اس معاملے پر سخت بحث جاری ہے کہ گروپ کو دہشتگرد تنظیم قرار دیا جائے یا نہیں۔ کچھ حکام کا موقف ہے کہ ایسا کرنے سے جنگی صورتحال پر کم فرق پڑے گا، لیکن اس سے افغانستان میں مفاہمتی عمل کے متاثر ہونے، اور پاکستان کے خلاف حملے تیز ہونے کا خدشہ ہے۔

متعلقہ عنوان :