جماعت اسلامی کی مجلس شورٰی کی امت مسلمہ کے مسائل بارے قرار دادیں منظور

جمعرات 15 جنوری 2015 22:57

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔15جنوری2015ء) جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شورٰی نے اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ خطے کو کسی بڑی تباہی سے بچانے کے لیے بھارت پر سفارتی اور اقتصادی دباؤ بڑھاتے ہوئے اسے مجبور کریں کہ وہ فوجی انخلا کرتے ہوئے کشمیر یوں کو حق خودورایت دینے کا وعدہ پوراکرے۔اجلاس نے پاکستان میں تخریبی کاروائیوں اور دہشت گرد گروہوں کو بھارتی ایجنسیوں کی پشت پناہی،پاکستان کو اپنے پانی کے جائز حق سے محروم کرنے کے لیے ڈیموں کی تعمیر پر بھی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کشمیر پر اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے تحریک آزادی کشمیر کی بھرپور پشتیبانی کرے اور بھارتی ریاستی دہشت گردی اور پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازشوں کو اقوام متحدہ اور اوآئی سی سمیت تمام بین الاقوامی اداروں میں بے نقاب اور کشمیریوں کے حق خودارایت کے لیے بھرپور سفارتی مہم کا اہتمام کرے ۔

(جاری ہے)

نیز 5فروری یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر قومی اور حکومتی سطح پر کشمیروں کی واضح حمایت کا بھرپور اہتمام کرے۔مرکزی مجلس شوری نے یہ بات اپنے حالیہ اجلاس میں ایک متفقہ قرارداد میں کہی ہے۔قراردادمیں مقبوضہ ریاست جموں کشمیرمیں بڑھتی ہوئی بھارتی ریاستی دہشت گردی پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زائد افراد شہید،ہزاروں زخمی اور ہزاروں حراستی مراکز میں سال ہا سال سے داد رسی کے منتظرہیں۔

گزشتہ عرصے میں دس ہزار لاپتہ شہداء کی قبروں کی دریافت پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی نشاندہی کے باوجود قابض فوج اور ایجنسیوں کے ایجنٹوں کے ذمہ دار افراد کے خلاف کاروائی کرنے کے بجائے انہیں عہدوں اوراعزازات سے نوازاجارہاہے۔ قائدین حریت باالخصوص جناب سید علی گیلانی کی مسلسل نظر بندی اور نقل و حرکت پر پابندی ،حج عمرہ اور بیرون ملک علاج معالجہ کی اجازت نہ دینا ۔

حتیٰ کہ مقبوضہ ریاست کے شہریوں کو بیرون ملک بالخصوص پاکستان میں اپنے عزیز و اقارب سے ٹیلی فون رابطے تک کی اجازت نہ دینا نام نہاد دنیا کی بڑی جمہوریت کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالی کی بدترین مثال ہے۔ ایک دوسری قرار داد میں جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ نے مطالبہ کیاہے کہ تمام غیر ملکی افواج ، اسلامی جمہوریہ افغانستان سے جلد ازجلد نکل جائیں۔

امریکی صدر باراک اوبامہ نے اعلان کیاتھاکہ اُن کی فوجیں سال 2014ء کے آخر تک افغانستان سے نکل جائیں گی ۔ لیکن پھر نئی حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت وہ اپنے فوجی اڈے اور لڑاکا فوج برقرار رکھے ہوئے ہے۔ سال 1979ء سے 1988ء تک روسی افواج نے افغانستان پر قبضہ جمائے رکھا تھا جس کے نتیجہ میں بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی 15لاکھ افغانوں کی ہلاکت اور 50لاکھ آبادی کی پاکستان اور ایران کی طرف ہجرت ہوئی اور اب 2001ء سے 2015ء تک 40ممالک کی افواج افغانستان میں موجود ہیں ۔

جس کے نتیجہ میں یہ پورا خطہ بدامنی ،اضطراب اور عدم استحکام سے دوچار ہے۔دہشتگردی ، قتل و غارت گری اور معاشی تباہی میں اضافہ ہواہے۔ قرار داد میں کہا گیاہے کہ افغانستان میں حقیقی امن و استحکام تب ہی قائم ہوسکتاہے جب تمام غیر ملکی افواج افغانستان چھوڑ دیں اور ان کے اڈے ختم ہو جائیں تاکہ ملک میں جنگ وجدل اور قتل وغارت گری کا یہ بنیادی سبب ختم ہواور ملت اسلامیہ افغانستان خود اپنے فیصلے کرسکے ۔

مرکزی مجلس شورٰی نے اپنی ایک اور قرار داد میں اپنوں اور غیروں کے ہاتھوں خون مسلم کی ارزانی اورہر طرف ظلم کے دور دورے پر گہری تشویش اور صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ شام، مصر، بنگلہ دیش ، اراکان، کشمیر، فلسطین، افغانستان، عراق، یمن اور لیبیا سمیت اکثر مسلمان ممالک کو خون میں نہلا یا جارہا ہے۔گزشتہ پچاس برس سے شامی عوام کی آزادیاں سلب کیے بیٹھا اسد خاندان، گزشتہ چار برس سے اپنے عوام کو بلاتفریق تہ تیغ کررہا ہے۔

اب تک بچوں، بوڑھوں، خواتین اور جوانوں سمیت ڈیڑھ لاکھ سے زائد بے گناہ شہید ہوچکے ہیں۔مصر میں 60 سالہ بدترین فوجی ڈکٹیٹرشپ کے بعد عوام نے سینکڑوں جانوں کی قربانیاں پیش کرنے کے بعد ظلم سے نجات حاصل کی، لیکن ملکی تاریخ کے پہلے حقیقی اور آزادانہ انتخابات کے ذریعے وجود میں آنے والی پارلیمنٹ کو چند ہفتوں اور منتخب صدر کو صرف ایک سال کے بعد خوں ریز فوجی انقلاب کی ذریعے روند ڈالا گیا۔

چار ہزار سے زائد بے گناہ مردوزن کو شہید اور 20 ہزار سے زائد کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا، اتنی ہی تعداد میں لوگ لاپتہ ہیں۔برارد ملک بنگلہ دیش گزشتہ سات برس سے مقتل گاہ بنا ہوا ہے۔ حسینہ بنت شیخ مجیب الرحمن مکمل ہندوستانی سرپرستی میں اپنے تمام مخالفین کو ہولناک سیاسی انتقام کا نشانہ بنارہی ہے۔ 5 ہزار سے زائد بے گناہ جیلوں میں ہیں۔ سینکڑوں شہید کردیے گئے۔

درجنوں سیاسی قائدین اور علمائے کرام کے نام سزائے موت کے یک طرفہ پروانے جاری کردیے گئے۔ گذشتہ سال عبد القادر ملا کو پھانسی لگا دیا گیا۔ ظالمانہ سزاوٴں کا یہ سلسلہ اب بھی تیزی سے جاری ہے اور ان سزاوٴں کے خلاف پرامن احتجاج کرنے والوں کو بھی ناقابل بیان تشدد اور گرفتاریوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ پروفیسر غلام اعظم اور مولانا ابو الکلام محمد یوسف جیسے بزرگ قومی رہنما جیلوں ہی میں خالق حقیقی سے جاملے۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ حقوق انسانی کی ان سنگین اور مسلسل خلاف ورزیوں اور توہین کے باوجود پوری عالمی برادری نہ صرف چپ سادھے بیٹھی ہے ،بلکہ بالواسطہ ان کی حوصلہ افزائی اور پشت پناہی کررہی ہے۔

متعلقہ عنوان :