سپریم کورٹ نے ڈیرہ مراد جمالی میں 1994ء میں دوہرے قتل اور کاروکاری کے ملزم محمد زمان کی نظرثانی کی اپیل زائدالمیعاد قرار دیتے ہوئے خارج کردی،

قتل کے ملزموں کو سزاؤں میں تاخیر کی ذمہ دار حکومت ہے عدالت نہیں ،لہٰذا اس گراؤنڈ پر قتل کے ملزموں کی تاخیر سے دائر کردہ نظرثانی کی درخواست پر ریلیف نہیں دے سکتے،جسٹس آصف سعید خان کھوسہ

بدھ 14 جنوری 2015 22:51

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔14جنوری2015ء) سپریم کورٹ نے ڈیرہ مراد جمالی میں 1994ء میں دوہرے قتل اور کاروکاری کے ملزم محمد زمان کی نظرثانی کی اپیل زائدالمیعاد قرار دیتے ہوئے خارج کردی‘ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ قتل کے ملزموں کو سزاؤں میں تاخیر کی ذمہ دار حکومت ہے عدالت نہیں لہٰذا اس گراؤنڈ پر قتل کے ملزموں کی تاخیر سے دائر کردہ نظرثانی کی درخواست پر ریلیف نہیں دے سکتے‘ یہ عدالت پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ ہر مقدمے کے اپنے خدوخال اور پس منظر ہوتا ہے‘ بادی النظر میں ملزم نے 2056 دنوں بعد نظرثانی کی درخواست دائر کرکے عدالتی فیصلے سے مطمئن ہونے کا تاثر دیا ہے۔

انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز دئیے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

(جاری ہے)

ملزم کے وکیل سردار محمد غازی نے موقف اختیار کیا کہ ان کے موکل کو جیل میں بیس سال قید میں گزرگئے ہیں اسلئے سزائے موت کے عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر نظرثانی کی جائے اس پر عدالت نے کہا کہ سزائے موت میں تاخیر حکومت نے کی ہے عدالت نہیں کی‘ ویسے بھی جب یہ فیصلہ دیا گیا تھا تو ملزم نے اس کیخلاف نظرثانی کی اپیل دائر نہ کرکے یہ تاثر دیا تھا کہ اسے یہ فیصلہ منظور ہے اب اتنے عرصے کے بعد درخواست دائر کی گئی ہے‘ کیسے اس کی سماعت کریں اسلئے درخواست خارج کی جاتی ہے۔

ملزم زمان پر الزام ہی کہ اس نے بھائی کیساتھ مل کر سکندر اور نصیباں بی بی کو سیاہ کاری قرار دے کر قتل کردیا تھا‘ ماتحت سمیت اعلی عدلیہ نے سزائے موت دی تھی۔

متعلقہ عنوان :