آئین میں 21ویں ترمیم کا فیصلہ پیپلز پارٹی نے خوشی یا شوق سے نہیں کیا ہے،شرجیل انعام میمن،

پیپلز پارٹی مارشل لاء کیخلاف جدوجہد کرنیوالی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے، 21ویں ترمیم کے بعد وفاق کی جانب سے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد بارے وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت اجلاس میں اہم فیصلے کئے گئے ہیں، اجلاس سے خطاب

جمعرات 8 جنوری 2015 22:28

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔8 جنوری۔2015ء) سندھ کے وزیر اطلاعات و بلدیات شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ آئین میں 21ویں ترمیم کا فیصلہ پیپلز پارٹی نے خوشی یا شوق سے نہیں کیا ہے۔ پیپلز پارٹی اس ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے ، جس نے ہمیشہ مارشل لاء کے خلاف جدوجہد کی ہے۔ 21ویں ترمیم کے بعد وفاق کی جانب سے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے حوالے سے وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں اہم فیصلے کئے گئے ہیں۔

اجلاس میں کور کمانڈر سندھ ، سیکرٹری داخلہ، گورنر سندھ، آئی جی سندھ، ڈی جی رینجرز کے علاوہ متعلقہ اداروں کے اعلیٰ افسران نے شرکت کی تھی اور 21 ویں ترمیم کے حوالے سے اہم فیصلے کئے گئے ہیں۔ اس قانون کے تحت صوبے تمام وہ اہم کیسز جو مذہبی اور فرقہ وارانہ کیسز کے علاوہ دہشتگردی کے دیگر کیسز کو وفاق کو بھیجا جائے گا اور وہ اس کی اسکرونٹی کے بعد انہیں آرمی کورٹس کو بھیج دے گی۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو اپنے دفتر میں ایپیکس سندھ چیپٹر کے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں وزیر اعلیٰ سندھ کی زید صدارت ہونے والے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر سیکرٹری داخلہ نیاز عباسی اور سیکرٹری اطلاعات ذوالفقار شالوانی بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ اجلاس میں 21ویں آئینی ترمیم کے بعد وفاق کی جانب سے صوبوں کو ملنے والی ہدایات اور اس سلسلے میں صوبے کے ذمے دی جانے والی ذمہ داریوں کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس قانون کے تحت صوبے براہ راست آرمی کورٹس کو کوئی کیس نہیں بھیج سکتی بلکہ صوبے وہ تمام کیسز جو آئین اور قانون کے تحت 21 ویں ترمیم کے زمرے میں آتے ہیں ان کو وفاقی محکمہ داخلہ کو ارسال کرے گی اور وفاقی وزارت داخلہ ان کیسز کی اسکرونٹی کے بعد انہیں آرمی کورٹس میں بھیج دیں گی۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے آئی جی سندھ اور ڈی جی رینجرز کو ہدایات دیں ہے کہ وہ ایسے تمام کیسز جو اس زمرے میں آتے ہیں ان کو ایپیکس میں لائیں تاکہ اس کی مکمل چھان بین کے بعد ان کیسز کو وفاق کو بھیج دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ سانحہ ائرپورٹ، مہران بیس کیس، سانحہ 18 اکتوبر سمیت دیگر دہشتگردی کے کیسز کو وفاقی محکمہ داخلہ میں بھیجے جانے پر اتفاق کیا گیا ہے اس کے علاوہ ایسے تمام کیسز جو انسداد دہشتگردی کے زمرے میں آتے ہیں ان کو بھی بھیجا جائے گا۔ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس وقت 375 کیسز ایسے ہیں جس پر سندھ اور سپریم کورٹس جبکہ ایک کیس جی ایچ کیو میں زیر سماعت ہے جبکہ 3000 کیسز ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے ہیں، جن میں سے صرف 50 ملزمان پر فرد جمر عائد ہوسکا ہے باقی مانددہ کیسز یا تو تاخیر کا شکار ہیں جبکہ کئی کیسز میں تو صرف ملزمان کو معزز عدالتوں نے 6 چھ گھنٹوں کی سزائیں دے کر رہا کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے 20 اہم نکات میں سے 14 نکات صوبائی حکومتوں کے زمرے میں آتے ہیں اور ان تمام کیسز کے حوالے سے ایپیکس میں غور کرکے ان کو وفاقی وزارت داخلہ کے سپرد کیا جائے گا۔ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ ایپیکس کمیٹی کے سربراہ وزیر اعلیٰ سندھ ہوں گے جبکہ ان کی مزید 4 ذیلی کمیٹیوں میں ایگزیکیوشن کمیٹی اور لیگل سب کمیٹی کے سربراہ سیکرٹری داخلہ سندھ ہوں گے اس کے علاوہ تحقیقاتی اور میڈیا کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئی ہیں۔

شرجیل انعام میمن نے کہا کہ اجلاس میں صوبے کے حوالے سے اہم فیصلے کئے گئے ہیں، جس کے تحت اب صوبے بھر میں کرایے پر مکان لینے اور دینے والوں کو اب رجسٹریشن کروانی ہوگی اور اس سلسلے میں جلد قانونی میں ترمیم کرلی جائے گی۔ صوبے میں موجود غیر قانونی تارکین وطن اور افغان مہاجرین کے خلاف بھرپور کریک ڈاؤن کیا جائے گا اور اس سلسلے میں صوبے کے تمام ڈویژن کمشنرز کو ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ بلڈرز، پیٹرول پمپس مالکان، ہوٹلوں، دیہی علاقوں میں اینٹوں کے بھٹے مالکان، دکانداروں اور ان گھروں کے مالکان سے رابطہ کرکے ان سے آگاہی حاصل کریں گے اور انہیں باور کرایا جائے گا کہ وہ اپنے یہاں موجود غیر قانونی تارکین وطن اور افغان مہاجرین کو فوری طور پر اپنے یہاں سے ہٹا دیں۔

انہوں نے کہا کہ سول سوسائٹی اور گھروں اور دکانوں کے مالکان پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے پاس موجود اور رکھے جانے والے ملازمین کے تمام کاغذات اور قومی شناختی کارڈ کی مکمل چھان بین کے بعد انہیں ملازمت پر رکھیں اور ان تمام کے لئے وقت دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں نادرا سے بھی رابطے کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ وہ غلط شناختی کارڈ کے اجراء کو روکنے میں بھرپور کردار ادا کریں۔

انہوں نے کہا کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ صوبے میں دہشتگردوں اور دہشتگردی سے نبردآزما ہونے کے لئے 1 ہزار نوجوانوں پر مشتمل کاؤنٹر ٹیررزم فورس (انسداد دہشتگردی فورس) قائم کی جائے گی اور اس فورس میں بھرتیوں کو میرٹ اور اہل نوجوانوں کی بھرتیوں کے حوالے سے وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے ایک مانٹرنگ کمیٹی بھی بنائی جارہی ہے۔ شرجیل میمن نے کہا کہ اجلاس کو بتایا گیا ہے کہ صوبے میں 270 سیکورٹی کمپنیوں میں 60 ہزار سے زائد ملازمین ہیں، جن میں غیر قانونی تارکین وطن، افغان مہاجرین اور جرائم پیشہ عناصر کی موجودگی کی بھی رپورٹ ہیں، جس پر فیصلہ کیا گیا ہے کہ ان تمام کی اسکرونٹی کی جائے گی اور اگر کوئی ایسا ملوث پایہ گیا تو اس کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ صوبے کے تمام داخلی اور خارجی راستوں پر چیک پوسٹ قائم کی جارہی ہیں، جس کا مقصد دوسرے علاقوں سے صوبے میں آنے والوں کی رجسٹریشن کو یقینی بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ صوبے میں 500 تارگٹ کلرز اور 450 جرائم پیشہ اور اغواء برائے تاوان میں ملوث ملزمان مفرور ہیں، جس پر ان تمام کے سروں کی قیمت مقرر کرنے کی بھی منظوری دی گئی ہے جبکہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ عوام اور خفیہ اداروں کی مدد سے ان تمام ملزمان کو گرفتار کیا جاسکے ۔

انہوں نے کہا کہ لاؤڈ اسپیکر، وال چاکنگ اور نفرت انگیز لٹریچرز کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لئے بھی سخت اقدامات کرنے کی اجلاس میں وزیر اعلیٰ سندھ نے ہدایات جاری کی ہیں اور تمام متعلقہ محکموں کو ہدایات دیں ہے کہ وہ آج کے اجلاس میں ہونے والے تمام فیصلوں پر سختی سے عمل درآمد کریں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز جس میں سیاسی جماعتیں، پاک فوج اور امن و امان کی بحالی کے ادارے ایک نکتہء پر متفق ہیں کہ صوبے اور اس ملک سے دہشتگردی اور انتہاء پسندی کا خاتمہ کیا جائے اور آج کے اجلاس میں کور کمانڈر سندھ نے اپنے مکمل تعاون کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔

صولت مرزا کی پھانسی کی سزا کو روکے جانے کے سوال پر شرجیل انعام میمن نے کہا کہ اس کے احکامات وفاقی وزارت داخلہ سے آئے ہیں اس لئے اس کا جواب وفاقی وزیر داخلہ ہی دے سکتے ہیں۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع پر جس طرح کی بھی خبریں چلیں ہمیں اب اس ملک سے دہشتگردی اور انتہاء پسندی کے خاتمے کے لئے سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔

ملٹری کورٹس کی تعداد اور کہاں کہاں بنائے جانے کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں تمام تر اختیارات وفاقی وزارت داخلہ کے پاس ہیں اور ان کا وہی جواب دے سکتے ہیں۔ ہمارا کام دہشتگردی ، مذہبی انتہاء پسندی اور فرقہ واریت کے زمرے میں ہونے والے تمام اہم کیسز کو ایپیکس کے ذریعے وفاقی وزارت داخلہ کو بھیجنا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں شرجیل انعام میمن نے کہا کہ 21 ویں ترمیم کا فیصلہ پیپلز پارٹی نے خوشی یا شوق میں نہیں کیا۔

پیپلز پارٹی اس ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے، جس نے ہمیشہ مارشل لاء کے خلاف جدوجہد کی ہے۔ ہم نے یہ فیصلہ عوامی مفاد میں کیا ہے۔ہم عوام کی جماعت ہیں اور اس ملک میں جہاں معصوم بچوں کو، پولیس افسران کو ، فوجی جوانوں اور قومی اداروں پر ہملے کئے جاتے ہوں وہاں پر اس طرح کے مشکل اور سخت فیصلے عوامی مفاد کے لئے ضروری بن جاتے ہیں۔