تعلیمی اداروں میں پائی جانیوالی بے یقینی کی کیفیت کوفی الفور ختم کرکے واضح پالیسی اپنائی جائے ،معراج الدین خان ،

تمام سکولوں کوجلدازجلد سیکورٹی فراہم کرکے کھولا جائے، طلباء و طالبات 22 دن سے کتاب سے دور ہیں، پریس کانفرنس

بدھ 7 جنوری 2015 23:20

پشاور(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 07 جنوری 2015ء) نائب امیر جماعت اسلامی خیبرپختونخوا معراج الدین خان نے کہا ہے کہ تعلیمی اداروں میں پائی جانے والی بے یقینی کی کیفیت کوفی الفور ختم کرکے واضح پالیسی اپنائی جائے ،تمام سکولوں کوجلدازجلد سیکورٹی فراہم کرکے کھول دیاجائے، طلباء و طالبات 22 دن سے کتاب سے دور ہو گئے ہیں ۔ گزشتہ روز پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے فضل اللہ داؤد زئی ‘مشتاق علی یوسفزئی اور جماعت علی شاہ کا کہنا تھا کہ میٹرک کے طلباء کے امتحانات 16 مارچ سے شروع ہونے کو ہیں لہٰذا مزید چھٹیاں دینے کی بجائے تعلیمی اداروں کو کھول دیا جائے ۔

تھانوں بازاروں میں بم دھماکوں کے بعد انہیں بند نہیں کیا جاتا ۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بندش سے تنخواہوں کی ادائیگی نہیں ہو رہی جس سے لاکھوں ٹیچرز تنخواہوں سے محروم ہیں جبکہ جن سکولوں کو این او سی نہیں ملے گا انہیں بند رکھنے کی بات کی جارہی ہے جبکہ بازاروں اور تھانوں میں دھماکوں کے بعد انہیں بھی کیا بند رکھا گیا یا انہیں بھی این او سی جاری کیا گیا ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ بین الاقوامی سازش کے تحت فروری میں ورلڈ کپ کا انعقاد کر کے ہمارے طالبعلموں کو مزید تعلیم سے دور رکھا جا رہا ہے ۔ 22 روز کی چھٹیوں سے تعلیمی نصاب مکمل نہ ہونے کے باوجود نہ امتحانات ملتوی کئے گئے ۔ پرائیویٹ سکولز اپنی مدد اور بساط کے تحت سیکورٹی فراہم کر رہے ہیں مگر سرکاری اداروں کی سیکورٹی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ دیہاتی علاقوں میں اکثر ایک ہی شخص سکول چوکیدار بھی ہے اور وہی چائے پانی کا کام بھی کرتا ہے ۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ امیر جماعت اسلامی نے امن کانفرنس میں کہا تھا کہ سکول بند نہ کئے جائیں بلکہ سانحہ پشاور کے اگلے روز وزیراعظم اور آرمی چیف کو آرمی سکول پشاور جا کر کلاسز لینی چاہیے تھی تاکہ سکول کے بچوں کی حوصلہ افزائی ہوتی اور ان میں پایا جانے والا خوف ختم ہو سکتا ۔ پہلے سانحہ پشاور کے اگلے روز ملک بھر کے تعلیمی اداروں کو بند کر دیا گیا پھر 21 سے 31 دسمبر ، پھر 5 جنوری اور پھر 11 جنوری تک تعلیمی ادارے بند کر دیئے گئے جبکہ اب مزید انہیں بند رکھنے کی بات کی جارہی ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔