ذکی الرحمان لکھوی کی نظر بندی ختم کرنے کے ہائیکورٹ کے حکم کیخلاف وفاق کی درخواست پر ملزم کو نوٹس جاری،چوبیس گھنٹوں میں جواب ،

جوڈیشل مجسٹریٹ اسلام آباد کو سپریم کورٹ کے حکم تک ذکی الرحمان لکھوی کی ضمانت پر کوئی فیصلہ نہ سنانے کی ہدایت بھی جاری، عدالت نے لشکر طیبہ کو کالعدم قرار دینے اور ذکی الرحمان لکھوی کی نظر بندی کے نوٹیفکیشن بھی آج طلب کر لیا، حکومتی پریشانی کی سمجھ نہیں آرہی وہ ملزم کی جیل میں موجودگی کے باوجود اس کی نظر بندی پر کیوں اصرار کررہی ہے؟ جسٹس جواد ایس خواجہ، عدالتوں کی موجودگی کے باوجود نظر بندی کا حکومتی اختیار معیوب سا لگتا ہے ، دوسرے فریق کو سنے بغیر کسی شہری کی آزادی پر قدغن نہیں لگا سکتے، ریمارکس

منگل 6 جنوری 2015 23:34

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 06 جنوری 2015ء ) سپریم کورٹ نے ممبئی حملوں کی سازش کے ملزم ذکی الرحمان لکھوی کی نظر بندی ختم کرنے کے ہائیکورٹ کے حکم کیخلاف دائر وفاق کی درخواست پر ملزم کو نوٹس جاری کردیئے ہیں اور ان سے وفاق کی درخواست پر چوبیس گھنٹوں میں جواب طلب کیا ہے جبکہ عدالت نے جوڈیشل مجسٹریٹ اسلام آباد کو ہدایت کی ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم تک وہ ملزم ذکی الرحمان لکھوی کی ضمانت پر کوئی بھی فیصلہ نہ سنائے ، عدالت نے لشکر طیبہ کو کالعدم قرار دینے اور ذکی الرحمان لکھوی کی نظر بندی کے نوٹیفکیشن بھی آج (بدھ) کی صبح نو بجے تک طلب کئے ہیں ۔

دو رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ شہریوں کی آزادی کے حوالے سے آرٹیکل 9کا نفاذ چاہتی ہے، ملزم پہلے ہی اڈیالہ جیل میں ہے حکومتی پریشانی کی سمجھ نہیں آرہی وہ ملزم کی جیل میں موجودگی کے باوجود اس کی نظر بندی پر کیوں اصرار کررہی ہے؟ عدالتوں کی موجودگی کے باوجود نظر بندی کا حکومتی اختیار معیوب سا لگتا ہے ۔

(جاری ہے)

دوسرے فریق کو سنے بغیر کسی شہری کی آزادی پر قدغن نہیں لگا سکتے، حکومت کی پریشانی یکطرفہ جبکہ عدلیہ کی پریشانی دطرفہ ہوتی ہے اسے دونوں طرف کے حقوق کا خیال رکھنا پڑتا ہے، حکومت نے اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرلیا اب باقی معاملہ دیکھنا عدالت کا کام ہے عدالت بدھ کو سارا معاملہ سن کر فیصلہ کردے گی ۔ انہوں نے یہ ریمارکس منگل کے روز دیئے ہیں ۔

اٹارنی جنرل سلمان بٹ پیش ہوئے اور وفاقی حکومت کی جانب سے دلائل دیئے ۔ جسٹس جواد نے پوچھا کہ شوکاز نوٹس ایم پی او کے تحت جاری کیا گیا ہے یا نہیں ؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس کے تحت شوکاز نوٹس جاری نہیں کیا گیا ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ جو آرڈر جاری کیا گیا اس کی تفصیل دیں اور کس قانون کے تحت حکم جاری کیا گیا نظر بندی کس قانون کے تحت ہے اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرٹیکل 10 کی سب آرٹیکل 4 کے تحت حکم جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایسے تمام افراد کو حراست میں رکھا جاسکتا ہے جو کسی طرح سے بھی خطرہ ہوں ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ جہانگیر خان تو عدالت کی معاونت کی پوزیشن میں نہیں تھے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرسکتے تھے ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو لوگ بھی لوگوں کے لیے عدم تحفظ کا باعث بنیں ان کو حفاظتی تحویل میں لیا جاسکتا ہے ۔ ایم پی او کے تحت نظر بند کیا جاسکتا ہے چھ ماہ سے زائد کا عرصہ تک نظر بند نہیں رکھا جاسکتا سب سیکشن ون کے تحت بغیر کسی وجہ کسی کو نظر بند نہیں کیا جاسکتا نہ ہی گرفتار کیا جاسکتا ہے گرفتاری سے چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر قریبی مجسٹریٹ کی عدالت میں بھی پیش کرنا ہوتا ہے سوائے ان لوگوں کے جو ملکی سکیورٹی اور تحفظ میں رکاوٹ بن رہے ہوں یا اندرونی ملکی حالات کو متاثر کررہے ہوں کو گرفتار کیا جاسکتا ہے نظر بندی کیلئے ٹھوس وجہ کا ہونا ضروری ہے ابتدائی طور پر تین ماہ کے لیے جاری کیا جاتا ہے تین دنوں کے بعد اس کو چیلنج کیا جاسکتا ہے ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ اٹھارہ جنوری کو ویسے بھی نظر بندی کا وقت ختم ہوجائے گا یہ نظر بندی کا حکم تو حکومت جاری کرتی ہے کیا نظر بندی کی وجوہات بھی تحریر کرتی ہے ۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یہ شخص بھارت میں ممبئی حملے میں مبینہ طور پر ملوث سمجھا جاتا ہے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ چار قسم کی چیزیں دی گئی ہیں یہاں پر جو کچھ بھی جاری کرنا ہے وہ حکومت نے کرنا ہے غالباً اس قسم کے مقدمات کو ڈیتھ کرتی ہے یہ کہنا کہ چونکہ یہ ملزم ہے اس لئے کارروائی کی جارہی ہے یہ صرف حکومت ہی کرسکتی ہے ۔

اٹارنی جنرل نے ضلعی عدالت کا فیصلہ پڑھ کر سنایا ذکی الرحمان لکھوی لاہور کا رہائشی ہے اور موجودہ طور پر اسلام آباد میں رہائش پذیر ہے اس کیخلاف دہشتگردی کے مقدمہ میں مبینہ طور پر ملوث ہے ملزم کو گرفتار کیا گیا اور جوڈیشل ریمانڈ پر بھجوایا گیا ملزم نے وفاقی دارالحکومت کے امن کے لیے خطرہ بن سکتا ہے اس کا تعلق لشکر طیبہ سے ہے اور اسے کالعدم قرار دیا جا چکا ہے ۔

امن عامہ کو برقرار رکھنے کے لیے عوام الناس کے امن کے لیے مجاہد شیر دل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے ذکی الرحمان لکھوی ولد عزیز الرحمان کی گرفتاری کا حکم دیا تھا اور اڈیالہ جیل میں رکھنے کا کہا تھا 12ستمبر 2009ء کے ایک مقدمے میں مبینہ طور پر ملوث ہے ان کیخلاف دہشتگردی کا مقدمہ ہے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اٹھارہ دسمبر 2014ء کو آرڈر جاری ہوا تھا ۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ پندرہ جنوری کو یہ حکم غیر موثر ہوجائے گا کیونکہ عدالت کے اس معاملے کو سن نہیں رہی ہے ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ حکومت نے ایک خیال وضع کیا ہے نظر بندی آپ کے نزدیک قانون کے مطابق ہے ریویو بورڈ میں اس کو چیلنج کیا جاسکتا ہے حکومت سمجھتی ہے کہ ابھی بھی اس کیخلاف کچھ مواد ہے تو نظر بندی میں توسیع کی جاسکتی ہے حکومت کی جانب سے عدالتی اختیار معیوب لگتا ہے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آرٹیکل 9 کے تحت شہریوں کو آزادی حاصل ہے آج چھ جنوری ہے حکومت 9 دن لگا سکتی ہے تو ایک روز آپ کیوں یہاں پیش نہیں کرسکتی ۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس شخص کا معاملہ انتہائی سنجیدہ ہے میں اس حوالے سے کیس لاء پیش نہیں کرنا چاہتا ہوں اسی عدالت کا فیصلہ موجود ہے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ صبح آپ پیش کیوں نہیں کرسکتے یہاں جو کچھ ہوتا ہے اس کی ذمہ داری حکومت پر ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ضمانت کی درخواست لگی ہوئی ہے ممکن ہے کہ اس میں ضمانت ہوچکی ہو ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم حکومت کی سنجیدگی کو سمجھ رہے ہیں ہماری بھی اتنی ہی پریشانی ہے ہم پریشانی یکطرفہ نہیں دوطرفہ ہے آئین کا آرٹیکل 9کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے ۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت آبزرویشن دے کہ اس کو عدالت میں پیش کرنے سے قبل رہا نہ کیاجائے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ممکن ہے کہ ہم کسی سقم کی وجہ سے یہ حکم کالعدم قرار دے دیں آپ ماتحت عدالت میں درخواست کرسکتے ہیں کہ یہ سپریم کورٹ میں معاملہ ہے یہ حکومت کا صوابدیدی اختیار ہے جس کا عدالت نے جائزہ لینا ہے ہم سب کو سن کر فیصلے کردینگے اگر یہ قانونی حکم نہیں تھا تو ممکن ہے کہ ہم اس حکم کو ہی ختم کردیں جب حکومت اور ہم عدالت ہیں ہم نے تو توازن رکھنا ہے آپ سیشن کورٹ سے رجوع کریں ممکن ہے کہ وہ آپ کی استدعا منظور کرلے ہم آپ کی درخواست سن چکے ہیں وہ پہلے ہی جیل میں رہے ضمانت بھی نہیں ہوئی آپ کی پریشانی کی سمجھ نہیں آرہی جج سن کر فصلہ کردینگے حکومت کو پریشانی کس بات سے ہے وہ تو پہلے ہی بے چارہ جیل میں ہے ابھی کسی بات کو فرض نہ کریں جو بھی ہوا ہے اس سے عدالت کو آگاہ کردیں نظر بندی کا نوٹیفکیشن بھی دے دیں ۔

لشکر طیبہ پر پابندی کا نوٹیفکیشن بھی عدالت میں جمع کروائیں ۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ عدالت نے تاریخ دی ہے میں قانون کی رو سے حقائق عدالت کو بتانا چاہتے ہیں ہم صرف چوبیس گھنٹے کی مہلت مانگ رہے ہیں ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم نے تو کہا ہے کہ صبح نو بجے تک رہا نہ کریں ہم واضح کررہے ہیں کہ یہ عدالتی حکم ہے اس پر عمل کیوں نہیں ہوگا آپ وفاقی حکومت کو بتادیں عدالت کو بھی کہیں کہ عدالت نے کہا ہے کہ اس کو سنے گی اور فیصلہ دے گی اس وقت تک سماعت ملتوی رکھی جائے بعدازاں عدالت نے حکم تحریر کراتے ہوئے کہا کہ یہ درخواست وفاق کی جانب سے دائر کی گئی انتیس دسمبر 2014ء کے عدالت کے حکم کیخلاف دائر کی گئی تھی اٹھارہ دسمبر 2014ء کو ویسٹ پاکستان مینٹینس آف پبلک آرڈر کے تحت جاری کیا گیا تھا کو معطل کرنے کی استدعا کی گئی ہے ۔

اٹارنی جنرل کو تفصیل سے سنا اور ہم چاہتے ہیں کہ آرڈیننس کے تحت جاری حکمنامے کا جائزہ لے سکے بادی النظر میں اٹارنی جنرل اس کی نظر بندی جاری رکھنا چاہتے ہیں اور حکمنامہ معطل کرانا چاہتے ہیں قانون کی موجودگی میں عدالت کا حکم برقرار نہیں رکھا جاسکتا ، عدالتی حکم کے اجراء تک ملزم کو رہا نہ کیا جائے ممکن ہے کہ یہ آرڈر معطل کردیا جائے ایک مقدمے میں ضمانت ہوچکی ہے دوسرے میں نظر بند رکھا گیا ہے اٹارنی جنرل نے کہا کہ ضمانت کی درخواست دائر کی گئی ہے جوڈیشل مجسٹریٹ اسلام آباد اظہر منیر کو دی گئی ہے اس کی سماعت ہونا ہے اس درخواست کا کیا بنتا ہے وہ بتایا جائے عدالت کو بتایا گیا کہ صبح ریکارڈ منگوایا گیا تھا مگر ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے کیس کی سماعت ملتوی رکھی گئی ہے سوا ایک بجے تک مقدمہ انتظار میں رکھا گیا ہے اگر عدالت اس کے حق میں کوئی فیصلہ جاری کرتی ہے تو اس کا جائزہ لے کر فیصلہ دینگے لکھوی کو نوٹس جاری کیا جاتا ہے جوڈیشل مجسٹریٹ آج بدھ تک حکم جاری نہ کرے ۔

(