سپریم کورٹ قواعد 1980ء میں ترمیم کیس،سپریم کورٹ نے بار کو فریق بنالیا،تجاویز طلب،

آئین فوری انصاف کا تقاضہ کرتا ہے یہاں پچیس سال لگ جاتے ہیں،جسٹس جواد خواجہ، بھارت نے سپریم کورٹ قواعد بنا لئے ہیں مگر ہمارے ہاں آج بھی 1980ء کے قواعد پر ہی کام کررہے ہیں ،ریمارکس، جسٹس جواد ایس خواجہ عدالت میں قصے سناتے رہے

منگل 6 جنوری 2015 23:30

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 06 جنوری 2015ء ) عدالت عظمیٰ نے پاکستان بار کونسل کے بعد سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو بھی سپریم کورٹ قواعد 1980ء میں ترمیم کے حوالے سے مقدمے میں فریق بننے کی اجازت دیتے ہوئے ان سے تجاویز طلب کرلیں اور سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی ۔ پانچ رکنی لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ رولز بنانے کے لیے عرق ریزی کی ضرورت ہے بھارت نے سپریم کورٹ قواعد بنا لئے ہیں مگر ہمارے ہاں آج بھی 1980ء کے قواعد پر ہی کام کررہے ہیں میری تحقیقات کے مطابق آئین وقانون کے برعکس ایک متاثرہ شخص کو انصاف کے حصول میں پچیس سال کا عرصہ لگ جاتا ہے جبکہ آئین و قانون جلد سے جلد اور ہر قیمت پر انصاف کی فراہمی کی ضمانت دیتا ہے کچھ فیصلے ایسے ہیں کہ جن کی زیادہ تر عدالتوں کی سماعتوں میں صرف ہڑتال ہی لکھا گیا ہے جو لمحہ فکریہ ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے منگل کے روز مزید ریمارکس میں کہا ہے کہ وہ ہوا میں بات نہیں کررہے ہیں ان کے کہنے پر تین افراد نے تحقیقات کی ہیں ہم چاہتے ہیں کہ اب اس کا کچھ نتیجہ ضرور نکلنا چاہیے ۔ آج قصوں کا دن ہے آپ لوگ بھی سنیں یہ کہانی مشہور ہے کہ مہاراجہ رنجیب سنگھ کے دربار میں ہزاروں افراد کی درخواستیں آتی تھیں انہیں میز پر رکھ کر تلوار ماری جاتی تھی جو درخواستیں میز پر رہ جاتی تھیں وہ منظور اور زمین پر گرنے والی تمام درخواستیں مسترد کردی جاتی تھیں اس انصاف میں انہیں دو منٹ سے زیادہ نہیں لگتے تھے مگر ہمارے انصاف میں پچیس سال کا عرصہ لگ جاتا ہے جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے ہیں کہ رولز کا جائزہ لینے کیلئے سپریم کورٹ کی کمیٹی بنائی گئی تھی اس سے بھی رجوع کیاجاسکتا ہے کیونکہ ان کے کام میں ان قواعد وضوابط کا جائزہ لینا ہے ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ ہمارے رولز 1980 میں بنے تھے بھارت اور پاکستان کے لیے ایک مشترکہ فیڈرل کورٹ تھی بھارت میں 1950 میں جبکہ ہمارے ہاں سپریم کورٹ 1956 میں بنائی گئی اور 1973ء میں آئین بنا 2013ء کے بعد اب 2015ء آچکا ہے وقت کے تقاضوں کے مطابق ان رولز میں ترمیم و اضافہ کی ضرورت ہے قانون بنانے والے یہاں بھی موجود ہیں وہ تجاویز دے سکتے ہیں اس پر ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ انہوں نے بھی مطابہ کیا تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے رولز بھارت سے مختلف ہیں آرٹیکل 4 ملک میں نہیں دیکھا گیا آرٹیکل 10اے تو تھا ہی نہیں آئین بعد میں بنا تھا اس پر عدالت نے کہا کہ جو لوگ بھی تجاویز دینا چاہتے ہیں وہ سپریم کورٹ رولز کمیٹی کو دے سکتے ہیں ہم اس کا عدالتی جائزہ بھی لیں گے عدالت نے سپریم کورٹ بار کی درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی ۔

(ر ا ش د)

متعلقہ عنوان :