قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی آئین میں اکیسویں ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل اتفاق رائے سے منظور کرلئے،

78 ارکان نے بل کے حق میں ووٹ دیا،جے یو آئی ف کے اراکین نے حصہ نہ لیا، وفاقی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ کسی بھی فرد یا گروہ کے خلاف مقدمہ ان خصوصی عدالتوں کو منتقل کر سکے گی، فوجی عدالتوں کو دہشت گردی میں ملوث گروپوں کے خلاف بھرپور کارروائی کا اختیار حاصل ہوگاجس کے خلاف

منگل 6 جنوری 2015 23:21

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 06 جنوری 2015ء) قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کے بعد سینیٹ نے بھی آئین میں اکیسویں ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل اتفاق رائے سے منظور کرلئے‘ 78 ارکان نے بل کے حق میں ووٹ دیا جمعیت علمائے اسلام ف کے اراکین نے کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔ اس بل کے تحت اعلیٰ عدلیہ سے متعلق آئین کے آرٹیکل 175 اور پاکستان آرمی سے متعلق آئین کے آرٹیکل 245 میں ترمیم شامل ہیں۔

اس ترمیم کا دورانیہ دو سال ہوگا۔ جبکہ وفاقی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ کسی بھی فرد یا گروہ کے خلاف مقدمہ ان خصوصی عدالتوں کو منتقل کر سکے گی۔ فوجی عدالتوں کو دہشت گردی میں ملوث ہر طرح کے عناصر ان گروپوں کے خلاف بھرپور کارروائی کا اختیار حاصل ہوگاجس کے خلاف اپیل بھی نہیں کی جا سکے گی۔

(جاری ہے)

منگل کے روز سینیٹ (ایوان بالا کے اجلاس کے دوران) وفاقی وزیر قانون سینیٹر پرویز رشید نے دستور (اکیسویں ترمیم) کا بل 2015 ء ایوان میں پیش کیا ایوان نے اس تحریک کی اتفاق رائے سے منظوری دے دی تحریک کے حق میں 78 جبکہ مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا۔

ایوان سے بل کی شق وار منظوری لی گئی۔ بعد ازاں وزیر قانون نے ایوان میں بل پیش کیا جسے اوپن ڈویژن کی بنیاد پر اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا اس کے حق میں 78 اراکین نے ووٹ دیا۔ اکیسویں آئینی ترمیم میں کہا گیا کہ ملک میں غیر معمولی حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ دہشت گردی اور پاکستان کے خلاف جنگ کا ماحول پیدا کرنے والوں کے خلاف تیزترین سماعت کیلئے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں۔

اس میں کہا گیا کہ موجودہ حالات میں پاکستان کو غیر معمولی صورتحال کا سامنا ہے۔ اس کامقصد دہشت گرد گروپوں کی جانب سے مذہب یا فرقے کا نام استعمال کرکے ہتیھار اٹھانے کا دعویٰ کرنے جبکہ مقامی اور غیر ملکی امداد کے حصول سے غیر ریاستی عناصر کو روکنا ہے۔ اس غرض سے پاکستان آرمی کے خلاف دہشت گرد گروپوں اور مذہب کا نام استعمال کرنے والے اسلحہ بردار دہشت گردوں کے ٹرائل کیلئے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی۔

آرمی پبلک سکول پشاور میں سولہ دسمبر 2014 ء کو افسوسناک سانحہ کے بعد پاکستان کے عوام نے منتخب نمائندوں کے ذریعے پاکستان سے دہشت گردی کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کیلئے غیر متزلزل عزم کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کی بقاء کیلئے ان اقدامات کو آئینی ترمیم کے ذریعے تحفظ دیا جائے گا۔ جنگ کی صورتحال سے نمٹنے سے متعلق آئین کے آرٹیکل 245 کے ذریعے پاک فوج کے دیئے گئے اختیارات سے متعلق آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2015 ء میں بھی ترمیم کیلئے پیش کردہ بل میں ترمیم کے بعد کسی بھی دہشت گرد گروپ یا اس سے تعلق رکھنے والے شخص جو مذہب یا مسلک کی بنیاد پر پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھائے گا مسلح افواج ‘ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں‘ فوجی تنصیبات ‘ اغواء برائے تاوان ‘ کسی شخص کو قتل یا زخمی‘ بارودی مواد کی نقل و حمل اور اسے ذخیرہ کرنے میں ملوث‘ خود کش جیکٹ یا گاڑیوں کی تیاری میں ملوث ہوگا یا کسی بھی قسم کے مقامی یا عالمی ذرائع سے فنڈنگ فراہم یا مہیا کرے گا اقلیتوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی میں ملوث ہوگا اس کے خلاف اس قانون کے تحت کارروائی عمل میں لائی جا سکے گی۔

یہ ترمیم دو سال کیلئے موثر رہے گی اور دو سال کے بعد از خود منسوخ ہوجائے گی۔ قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی اس اکیسویں ترمیمی بل 2015 ء کو اتفاق رائے سے منظور کرلیا۔