سوچنا ہوگا ہم اسلامی نظام چاہتے ہیں یا جمہوری؟ ،مولانا محمد خان شیرانی،

صدر و گورنرز کی جانب سے کسی کی سزاکو معاف کرنے کا اختیار غیراسلامی ہے، 21ویں آئینی ترمیم سمیت تمام قوانین کا جائزہ لے سکتے ہیں، عقیدئہ ختم نبوت کو وزراء، سپیکرز قومی اسمبلی، مسلح افواج کے سربراہان اور دیگر اہم عہدوں کے حلف ناموں میں شامل کیا جائے، بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط سے قبل مکمل غور و خوض کیا جائے،اسلامی نظریاتی کونسل کے زیراہتمام مذاکرہ کی تجاویز

منگل 6 جنوری 2015 23:20

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 06 جنوری 2015ء) اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے کہاہے کہ ہمیں اب سوچنا ہوگا کہ اسلامی نظام چاہتے ہیں یا جمہوری نظام ، اسلامی اور جمہوری شوریٰ میں فرق ہے، قصاص و حدود کے قوانین میں کوئی استثنیٰ نہیں دے سکتا،صدر و گورنرز کی جانب سے کسی کی سزاکو معاف کرنے کا اختیار غیراسلامی ہے، 21ویں آئینی ترمیم سمیت تمام قوانین کا جائزہ لے سکتے ہیں، رائے کیلئے قانون بھجوایاگیا تو رائے دینگے ،تجویز دیہے کہ پارلیمان میں بل پیش کرنے والے پر قانوناً لازم قرار دیا جائے کہ پیش کئے جانیوالے بل میں موجود مسودہ قرآن و سنت کے احکام کے مطابق ہے یا کم از کم ان احکامات سے متصادم نہیں، عقیدئہ ختم نبوت کو وزراء، سپیکر قومی اسمبلی، مسلح افواج کے سربراہان اور دیگر اہم عہدوں کے حلف ناموں میں شامل کیا جائے، بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط سے قبل مکمل غور کیا جائے۔

(جاری ہے)

وہ منگل کو یہاں اسلامی نظریاتی کونسل کے زیر اہتمام دستور پاکستان 1973ء کا مطالعہ برائے تشکیل اسلامی قوانین کے عنوان سے مذاکرے میں اظہار خیال کر رہے تھے۔ مذاکرے کی صدارت چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا محمد خان شیرانی نے کی جبکہ مسلم لیگ ن کے چیئرمین سینیٹر راجا ظفر الحق، وزیراعظم کے خصوصی مشیر برائے پارلیمانی امور بیرسٹر ظفر اللہ، چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمن، صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن فضل حق عباسی، سیکرٹری قانون جسٹس ریٹائرڈ رضا خان، سیکرٹری اسلامی نظریاتی کونسل حافظ اکرام الحق سمیت دیگر نے مذاکرہ میں شر کت کی اور خطاب کیا۔

مذاکرے کے بعد صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے کہاکہ مذاکراہ میں شرکاء کی طرف سے 13 نکاتی تجاویز پیش کی گئیں کہ کونسل کا قوانین پر رائے دینے اور سفارشات پیش کرنے کا حق موجود ہے ۔ حتمی رپورٹ کے بعد بھی اس کے فرائض منصبی بدستور برقرار ہیں۔ پارلیمان میں بل پیش کرنے والے پر قانوناً لازم ہوکہ وہ ثابت کرے کہ بل میں موجود مسودہ قرآن و سنت میں منضبط احکام کے مطابق ہے یا کم از کم یہ ثابت کرے کہ ان احکام سے متصادم نہیں ہے۔

آرٹیکل 2 اے اور 2 کو دیگر آرٹیکلز پر حاوی قرار دینا ایک امر ضروری ہے۔ کونسل آئین میں ترمیم کی سفارشات پیش کرنے کا حق رکھتی ہے۔ کسی بھی قانون پر اگر پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی ریفرنس نہ بھیجے تو بھی کونسل اس پر رائے دینے کی مجاز ہے۔ ملٹری کورٹس اور نئی آئینی ترمیم پر بھی کونسل کی سفارشات اور رائے آنا ضروری ہے۔ آئین میں پائے جانے والے تضادات کو ختم کرنے کیلئے کوششیں کرنی چاہئیں ۔

صدر پاکستان اور گورنرز کے استثناء ات اور ان کی طرف سے کسی سزا کو معاف کرنے کا اختیار غیر اسلامی ہے۔ جس طرح بنیادی حقوق کے مقدمات سپریم کورٹ کے براہ راست دائرہ اختیار میں ہیں اسی طرح قرآن و سنت سے منافی قوانین کی سماعت بھی براہ راست دائرہ اختیار سماعت میں شامل کی جانی چاہئیں۔ عقیدئہ ختم نبوت کو وزراء ، سپیکرقومی اسمبلی ، مسلح افواج کے سربراہان اور دیگر اہم عہدوں کے حلف ناموں میں بھی شامل کیا جائے، اسلامی تعلیمات کی رو سے بنیادی حقوق کسی بھی حالت میں معطل نہیں ہوتے حتیٰ کہ حالت جنگ اور میدان جنگ میں بھی برقرار رہتے ہیں ۔

قوانین پر نظر ثانی کا نظام مستحکم بنایا جائے اور اس کیلئے وقت کی حدود متعین کردی جائیں ، بین الاقوامی معاہدات پر دستخط کرنے سے قبل مکمل غور و فکر کرلینا چاہیے۔ میڈیا کے سوالوں کے جواب میں مولانا محمد خان شیرانی نے کہاکہ مذاکرہ میں چار نکاتی ایجنڈا زیر بحث آیا کہ آئین کی آرٹیکل 227 کی ذیلی شق کے تحت جو قوانین پہلے سے موجود ہیں یا جو بل ابھی پیش ہونے ہیں اس بارے اسلامی نظریاتی کونسل جائزہ لے سکتی ہے جبکہ اسی کے تحت جب تک آئین موجود رہے گا کونسل کے کردار کو ختم نہیں کیا جاسکتا ، دوسرا ایجنڈا کونسل کی سفارشات سے متعلق تھا جبکہ مذاکرے کا تیسرا ایجنڈا سفارشات کے بعد اس پر عملدر آمد سے متعلق تھا جبکہ چوتھا ایجنڈا احکام اسلامی کے متعلق تھا اس موقع پر انہوں نے اقوام متحدہ کے چارٹر 1948، 1961ء اور 16 دسمبر 1966ء کے حوالہ جات بھی دیئے اور کہاکہ ہمیں آئین پاکستان کا اقوام متحدہ کے منشور کے ساتھ موازنہ بھی کرنا ہوگا ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ہمیں اب یہ بھی سوچنا ہوگا کہ آیا اسلام اور جمہوریت ایک ساتھ چل سکتے ہیں یا نہیں کیونکہ اس سے بھی بہت سے اشتباہات پیدا ہوگئے ہیں کیونکہ اسلام کے شوریٰ اور جمہوری نظام کی شوریٰ کے نظام میں واضح فرق ہے اگر ہم اس ملک میں برطانوی طرز کی جمہوریت لاناچاہتے ہیں تو پھر وہاں بادشاہت اور بنیادی حقوق کے اپنا نظام ہے اگر ہم امریکن جمہوریت چاہتے ہیں تو وہاں صدارتی نظام نافذ ہے جبکہ ہمارے یہاں کا نظام تمام نظاموں کا مرکب ہے الیکشن کے نظام میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے الیکشن میں جماعتیں منشور دیتی ہیں جبکہ منشور نظام ہوتاہے اور نظام ریفرنڈم سے معرض وجود میں آتاہے۔

ایک اور سوال پر انہوں نے کہاکہ 21ویں آئینی ترمیم بارے بھی رائے دینگے لیکن مسودہ دیکھنے کے بعد اس کا فیصلہ کیا جائیگا۔ انہوں نے کہاکہ جب بھی کوئی بل ایوان میں بھیجا جائیگا اس کی نوک پلک کا جائزہ لینگے ۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہاکہ اسلامی نظریاتی کونسل کا کام سفارشات مرتب کرنا ہے ان پر عملدرآمد حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہاکہ اب ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہم اسلامی نظام چاہتے ہیں یا جمہوری نظام کیوں کہ جمہوری نظام میں شخصی آزادی کا تصور دیاگیاہے جسے اپنے کسی بھی فعل میں آزادی حاصل ہے ، معاشی حوالے سے بھی اسے آزادی دی گئی ہے خدا پرستی کیلئے آزادی ضرور ہے مگر ہوا پرستی کیلئے ماحول کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری لگائی گئی ہے جبکہ اسلامی نظام میں خدا پرستی کیلئے ماحول کی فراہمی کو یقینی قرار دیاگیاہے ۔

ایک اور سوال پر انہوں نے کہاکہ قصاص اور حدود کے قوانین میں کسی کو استثنیٰ کا اختیار نہیں ہے البتہ اگر قصاص کے قانون میں کوئی معاف کردے جبکہ حدود کے معاملات میں دیگر عوامل کو دیکھنا پڑے گا۔ ایک اور سوال پرانہوں نے کہاکہ تعزیرات میں اگر کوئی استثنیٰ دیدے تو اس کی گنجائش موجود ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہاکہ جب تک پارلیمنٹ موجودہے اسلامی نظریاتی کونسل اپنا کام کرتی رہے گی البتہ اگر قانون سازی فرد واحد بھی کرے گا تو کونسل اپنا کام جاری رکھے گی ہماری پارلیمنٹ کی ر و ایت رہی ہے ہمیشہ خطرات کے بادل منڈلاتے ر ہتے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن ہمیں اپنا کام کرنا ہے اور وہ کونسل کررہی ہے۔

متعلقہ عنوان :