فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق نام نہاد جمہوری پارٹیوں کا کردار قابل افسوس ہے ،بی این پی

پیر 5 جنوری 2015 23:11

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 05 جنوری 2015ء ) بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی مذمتی بیان میں کہا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق نام نہاد جمہوری پارٹیوں کا کردار قابل افسوس ہے آئینی ترمیم میں اپنا کردار ادا کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جمہوریت کے چیمپئن بننے کے دعویدار دانستہ طور پر جمہوری اداروں کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے سے بھی گریزاں نہیں تاریخ میں ان پارٹیوں کے عمل کو سیاہ دن اور آمرانہ سوچ کی عکاس کے طور پر یاد رکھا جائیگا ان نام نہاد جمہوری پارٹیوں کے قول و فعل میں تضاد نمایاں ہو چکا ہے بیان میں کہا گیا ہے کہ جمہوریت کے دعویدار خود جمہوری کی نفی کے مرتکب بنتے جا رہے ہیں جمہوری اداروں کو مزید پستی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے بیان میں کہا گیا ہے کہ جوڈیشل نظام میں فوجی عدالتوں کا کردار نہیں ہونا چاہئے اور ترمیم سے یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ موجودہ مروجہ عدالتی نظام پر حکمرانوں کا اعتماد نہیں ایسے ترامیم اور فوجی عدالتوں سے متعلق قانونی سازی سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کا موجودہ عدالتی نظام نہیں بیان میں کہا گیا ہے کہ ہمیں غیر جمہوری کھلوانے والے آج خود جمہوریت کے جنازہ اٹھانے سے پیچھے نہیں ہیں مستقبل میں ان کے اس کردار کو فراموش کرنا ممکن ہی نہیں اس سے پہلے بھی پارٹی کی آرگنائزنگ کمیٹی کا یہ فیصلہ سامنے آیا کہ فوجی عدالتوں کا قیام مسائل کا حل نہیں صرف اس اقدام سے معاملات بہتری کی جانب نہیں لے جایا جا سکتا بیان میں کہا گیا ہے کہ پارٹی معاشرے میں انتہاء پسندی ، مذہبی جنونیت ، طلبانائزیشن ، فرقہ واریت ، دہشت گردی کا خاتمہ چاہتی ہے تاکہ یہاں مذہب اور انتہاء پسندی اور تنگ نظری کی بنیاد پر جس طرح بے گناہ لوگوں کا خون بہایا گیا اور انسانیت سوز اقدامات کئے گئے وہ کسی بھی صورت درست نہیں تھے بحیثیت ایک قومی جمہوری پارٹی بی این پی نے ہمیشہ انتہاء پسندی ، مذہبی جنونیت کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے اسے معاشرے کیلئے ناسور گردانا بلوچستان نیشنل پارٹی کا چرا کر باحضور اور جعلی قیادت کو سامنے لایا گیا جو ہر فیصلے من و عن قبول کرتے ہوئے سر تسلیم خم کرے بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی نے فوجی عدالتوں سے متعلق جن خدشات کا اظہار کیا آنے والے وقتوں میں عوام کے سامنے ضرور عیاں ہونگے بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں پارٹی نے ابتدائی دنوں سے ہی افغان مہاجرین کے بارے میں واضح موقف عوام کے سامنے رکھا کہ بلوچستان میں انتہاء پسندی ، کلاشنکوف کلچر ، فرقہ واریت مذہبی رجحانات اور دہشت گردی میں افغان مہاجرین کے کلیدی کردار سے انکار ممکن نہیں پارٹی نے مختلف فورمز ، تحریر و تقریر میں لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کے متعلق اسٹیبلشمنٹ اور حکمرانوں کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی کوشش کی تاکہ بلوچستان کے عوام کو مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے لیکن جنرل ضیاء الحق کے دور میں انہیں بلوچستان کے شہری آبادی میں دانستہ طورپر آباد کیا گیا ساڑھے پانچ لاکھ خاندانوں کو شناختی کارڈز ، پاسپورٹ ، سرکاری دستاویزات سیاسی دباؤ اور پیسوں کے بل بوتے پر جاری کئے گئے ان دنوں میں مذہبی جنونیت ، انتہاء پسندی کو خود سیاسی اداروں نے خود مالی معاونت اور کھلی چھوٹ دی کہ بلوچستان میں کیمپوں کے بجائے شہروں میں کاروبار اور آزادی کے ساتھ رہ سکیں جس کا خمیازہ آج ہر طبقہ فکر کے لوگ بھگت رہے ہیں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے یہ امر بھی ضروری ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو سمجھ کر اب بھی بلاتفریق مذہبی انتہاء پسندوں اور دہشت گردوں کا صفایا کیا جائے بیان میں کہا گیا بلوچستان میں اب بھی بلواسطہ یا بلاواسطہ لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کے حوالے سے صوبائی حکومت کی کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں آئی جبکہ مرکزی حکومت اور خیبرپختونخواء گورنمنٹ نے اپنی پالیسی واضح کر دی ہے جبکہ بلوچستان حکومت اب بھی بہانوں سے کام لے رہی ہے جو تاریخی جرم کے مترادف ہے فرقہ واریت اور انتہاء پسندی سے بلوچستان بھی متاثرہ سرزمین ہے ہونا تو یہ چاہئے کہ بلوچستان حکومت مہاجرین کی آباد کاری کیلئے اقدامات نہ کرے اور بلاک شدہ شناختی کارڈز کے اجراء کیلئے تگ و دو نہ کرے ۔