مبینہ پاکستانی دہشت گردوں کی کشتی کی تباہی کا بھارتی ڈرامہ بے نقاب،

جس کشتی کو تباہ کیا گیا وہ شراب و ڈیزل کے اسمگلروں کی تھی،بھارتی میڈیا نے بھانڈا پھوڑ دیا

ہفتہ 3 جنوری 2015 23:30

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتاز ترین۔ 3جنوری2015ء) بھارت کی جانب سے گجرات کے قریب مبینہ پاکستانی دہشت گردوں کی کشتی کی تباہی کا ڈرامہ بے نقاب ہوگیا۔ جس کشتی کو تباہ کیا گیا وہ شراب اور ڈیزل کے اسمگلروں کی تھی۔ میڈیارپورٹ کے مطابق جس طرح بھارتی حکومت پاکستان کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ اسی طرح پاکستان سے متعلق رائی کو پہاڑ بناکر پیش کرنا متعصب بھارتی میڈیا کی پرانی عادت ہے ،بھارتی حکومت اور میڈیا نے اسی روایت کو دہرایا ،لیکن 31 دسمبرکو گجرات کے قریب سمندر میں پیش آنے والے واقعے صرف 48 گھنٹے بعد ہی بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس نے اپنی وزارت دفاع کے دعوؤں کا پوسٹ مارٹم کرکے رکھ دیا۔

بھارتی وزارت دفاع نے دعویٰ کیا کہ 31 دسمبر کی شب کوسٹ گارڈ نے گجرات کے قریب سمندر میں ایک مشتبہ کشتی کا پیچھا کرکے اْسے روکنے کی کوشش کی۔

(جاری ہے)

کشتی پاکستان کے ضلع ٹھٹھہ میں کیٹی بندر سے ا?ئی تھی جس میں ممکنہ طور پر دھماکا خیز مواد اور دہشت گرد تھے۔ تاہم اس میں سوار افراد نے رکنے کے بجائے کشتی کو آگ لگادی جس کے نتیجے میں دھماکا ہوا۔ کشتی کا ملبہ اور تمام افراد کی لاشیں سمندر میں ڈوب گئیں۔

تاہم انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق جو شواہد سامنے آئے اْن سے پتا چلتا ہے کہ ماہی گیروں کی کشتی میں شراب اور ڈیزل کے اسمگلر تھے۔بھارتی وزارت دفاع نے دعویٰ کیا کہ مشتبہ کشتی نے فرار ہونے کی کوشش کی اور کوسٹ گارڈ کی کشتیوں نے ایک گھنٹے تک اس کا پیچھا کیا۔ لیکن اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ماہی گیروں کی کشتی کا انجن اتنا طاقت ور نہیں ہوتا کہ کوسٹ گارڈ کی تیز رفتار کشتیوں کو شکست دے سکے۔

رپورٹ کے مطابق اعلیٰ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی وزارت دفاع کو ملنے والی خفیہ اطلاع کا کوئی تعلق دہشت گردی سے نہیں تھا اور نہ اس سے بھارت کو کوئی خطرہ تھا۔ خود بھارتی نیشنل ٹیکنیکل ریسرچ آرگنائزیشن نے کیٹی بندر سے چھوٹے سے اسمگلروں کی موبائل فون پر ہونے والی گفت گو پکڑی تھی۔ اخبار کے مطابق کشتی کا ملبہ اکٹھا کیا جاتا تو فورینزک معائنے سے دھماکا خیز مواد کی نوعیت کا پتا چل سکتا تھا۔

جلتی ہوئی کشتی کی جو تصویریں جاری کی گئیں انہیں دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ اس میں پلاسٹک ایکسپلوسو نہیں بلکہ دستی بم جیسا عام دھماکا خیز مواد ہوسکتا تھا۔اخبار کے مطابق 31 دسمبر کی شب مچھلیاں پکڑنے گئے تمام ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے کوئی کشتی جلتی ہوئی نہیں دیکھی۔ اس سے نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ یہ واقعہ شاید بھارتی سمندری حدود کے بجائے بین الاقوامی پانیوں میں ہوا ہے۔

رپورٹ کے جائزے سے یہاں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ اگر واقعہ بین الاقوامی پانیوں میں ہوا ہے تو بھارت نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے ،اس کا حساب کون دے گا۔کہیں بھارتی کوسٹ گارڈ کے ہاتھ بیگناہوں کے خون سے تو نہیں رنگ گئے ؟اور یہ بھی،کہ کہیں بھارتی وزارت دفاع تحقیقات کرنے اور ذمہ داروں کو سزا دینے کی بجائے انہیں تحفظ فراہم کرکے خود بھی شریک ملزم تو نہیں بن رہی۔

متعلقہ عنوان :