رجسٹرار سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں خارج کردہ درخواست پر نظرثانی کی درخواست اعتراض لگاکر واپس کردی،

درخواست گزار کا کوئی بنیادی حق متاثر ر نہ ہی انہیں درخواست دائر کرنے کا کوئی حق ہے، رجسٹرار سپریم کورٹ آفس، رجسٹرار آفس نے جو اعتراضات لگائے ہیں وہ عام نوعیت کے ہیں، ان کو جلد دور کرکے درخواست دائر اور ان اعتراضات کیخلاف اپیل دائر کریں گے،درخواست گزار مولوی اقبال حید ر

جمعہ 2 جنوری 2015 22:41

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔2 جنوری۔2015ء) 1998ء میں فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں خارج کردہ درخواست پر نظرثانی کی درخواست دائر کردی گئی تاہم عدالت نے اعتراض لگاکر واپس کردی۔ 16 سال قبل کراچی میں فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھی ان کیخلاف ولی محمد سمیت بعض لوگوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے یہ درخواستیں منظور کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کو غیر آئین و غیرقانونی قرار دیا تھا۔

ولی خان کے اس مقدمے میں عوامی حمایت تحریک کے سربراہ مولوی اقبال حیدر نے بھی ایک درخواست دائر کی تھی جو فوجی عدالتوں کے حق میں تھی تاہم سپریم کورٹ نے دوسری درخواستوں کیساتھ ساتھ اس کو بھی نمٹادیا تھا اسی درخواست کے اخراج پر موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے مولوی اقبال حیدر نے چند روز قبل سپریم کورٹ رجسٹری برانچ میں نظرثانی کی درخواست دائر کی تھی جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا تھا کہ موجودہ حالات میں فوجی عدالتوں کا قیام آئین اور قانون کے مطابق ہے۔

(جاری ہے)

ملک کی سالمیت کو خطرات لاحق ہیں۔ اگر دہشت گردوں کو بروقت اور سخت سزائیں نہ دی گئیں تو اس سے معاشرے میں اور زیادہ مایوسی پھیلے گی جس پر رجسٹرار سپریم کورٹ آفس نے اعتراض لگادیا ہے کہ درخواست گزار کا کوئی بنیادی حق متاثر نہیں ہوا اور نہ ہی انہیں درخواست دائر کرنے کا کوئی حق ہے۔ قبل ازیں فوجی عدالتوں کی حق میں دی گئی درخواست پر اعتراضات کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تھی ‘ عوامی حمایت تحریک پاکستان کے سربراہ مولوی اقبال حیدر نے رجسٹرار سپریم کورٹ کے اعتراضات کے خلاف چیمبرمیں اپیل دائر کی ہے جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ فوجی عدالتوں کا قیام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور وہ ایک شہری ہونے کے ناطے اس طرح کی درخواست عدالت میں دائر کر سکتے ہیں۔

دہشت گردی سے صرف فوجی ہی نہیں عام لوگ بھی متاثر ہوئے ہیں اس لئے کوئی بھی شہری سپریم کورٹ سے رجوع کا حق رکھتا ہے۔ یہ انتہائی اہم نوعیت کا معاملہ ہے جس کی عدالت میں سماعت کی اجازت دی جائے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل مولوی اقبال حیدر نے1999 ء کے عدالتی ولی محمد کیس میں جو فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف سپریم کورٹ نے دیا تھا میں نظر ثانی کی درخواست دائر کی تھی جس پر رجسٹرار سپریم کورٹ نے اعتراض لگا دیا تھا انہوں نے درخواست میں موقف اختیار کیاہے کہ سپریم کورٹ کے کسی بھی فیصلے کو حکومت ختم نہیں کر سکتی نہ ہی اس کے خلاف کوئی قانون سازی کر سکتی ہے۔

اگر ایسا کیا گیا تو یہ عدلیہ کی آزادی کے منافی ہوگا اور اختیارات کے توازن میں نقصان کاباعث ہوگا۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے یا تو عدالت خود اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے یا پھر وفاقی حکومت کو ہدایت کرے کہ وہ عدالت کے فیصلے پر نظر ثانی اور اہم آئینی اور قانونی نکات کی تشریح کیلئے سپریم کورٹ سے برائے راست رجوع کرے۔

صدر مملکت نے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس بھیج کر اس معاملے کی رہنمائی طلب کر سکتے ہیں۔مولوی اقبال حیدر نے ”آن لائن“ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے جو اعتراضات لگائے ہیں وہ عام نوعیت کے ہیں تو ان کو جلد دور کرکے درخواست دائر کریں گے اور ان اعتراضات کیخلاف اپیل دائر کریں گے۔ مولوی اقبال حیدر کا کہنا تھا کہ وہ یہ کوئی نئی درخواست دائر نہیں کررہے اور نہ ہی ان کوئی پہلی درخواست ہے اس سے پہلے بھی سپریم کورٹ پرویز مشرف کیس میں اور دیگر مقدمات میں ان کی درخواستوں پر نہ صرف سماعت کرچکی ہے بلکہ کئی اہم فیصلے بھی دئیے ہیں اس میں ایف نائن پارک میں کمرشل اقدامات اور دیگر معاملات پر ان کی درخواستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں۔

وہ پاکستان کے شہری ہیں جس کا دوسرے لوگ دہشت گردی واقعات سے متاثر ہوئے ہیں‘ وہ بھی متاثر ہوئے ہیں اسلئے ان کی درخواست قابل سماعت ہے اور موجودہ حالات کے تناظر میں ان کی درخواست کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ مولوی اقبال حیدر نے مزید کہا کہ آرٹیکل 175 کے تحت آئین میں مختلف عدالتیں بنانے کی اجازت دی گئی ہے تو اسی آرٹیکل کے تحت فوجی عدالت بھی قائم کی جاسکتی ہے۔ 1998 میں قائم کردہ عدالتیں محض سیاسی بنیادوں پر قائم کی گئی تھیں جبکہ آج کے حالات میں فوجی عدالتوں کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔

متعلقہ عنوان :