ملٹری کورٹس مستقل حل نہیں ہیں، دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی کیلئے انٹیلی جنس سسٹم کو بہتر بنانا ہوگا، عاصمہ جہانگیر

جمعہ 2 جنوری 2015 22:37

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔2 جنوری۔2015ء) معروف ماہر قانون عاصمہ جہانگیر نے ملٹری کورٹس کے قیام کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کی طرف سے آئین میں ترامیم کرنے کے عمل کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملٹری کورٹس مستقل حل نہیں ہیں ہمیں دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی کیلئے انٹیلی جنس سسٹم کو بہتر بنانا ہوگا۔ عاصمہ جہانگیر نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ملٹری کورٹس میں بنیادی انسانی حقوق کی سخت خلاف ورزی کے واقعات ماضی میں رونما ہوتے رہے‘ 1983 ء میں ملٹری کورٹس کی وجہ سے مجھے بھی کوٹ لکھپت جیل جانا جبکہ دیگر لاتعداد افراد بھی ملٹری کورٹ کا شکار ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ آئین میں ترامیم سے قبل سیاسی جماعتوں کے قائدین اور ان کی ٹیم میں شامل وکلاء معاملات کا باریک بینی سے جائزہ نہیں لیتے اور بعد میں انہیں اس کا انجام بھگتنا پڑتا ہے۔

(جاری ہے)

ماضی میں آئین کے آرٹیکل 62 ‘ 63 کو کھلا چھوڑ دیا گیا جس پر کوئی بھی سیاست دان پورا نہیں اترتا ‘ تاہم سسٹم کو چلانے کیلئے عدالت نے انتہائی صبر کا مظاہرہ کیا۔

لہذا کوئی بھی ایسی قانون سازی نہیں ہونی چاہیے جوآنے والے دنوں میں سیاست دانوں کے پشتاوے کا باعث بنے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں میں گرفتار افراد کا ٹرائل ہوتا ہے اور ان کے ٹرائل کو منطقی انجام تک اس وقت پہنچایا جاسکتا ہے جب پراسیکیوشن کے حوالے سے موثر کارکردگی سامنے آئے۔ لیکن ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ پراسیکیوشن کی خامیوں کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد کو سزائیں نہیں مل رہیں اور اس کی ذمہ داری عدالتوں پر ڈال دی جاتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج یہ ایک ایسی بلا بھی جسے ہم نے خود ہی پالا تھا اور آج یہ بلا ہمیں اور ہمارے بچوں کو پڑ گئی ہے۔