آئین میں ترمیم کئے بغیر فوجی عدالتوں کا مستقل قیام موجودہ عدلیہ اور آئین سے متصادم ہے،جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی

پیر 29 دسمبر 2014 16:18

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتاز ترین ۔ 29دسمبر 2014ء)سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کی رولنگ موجود ہے کہ آئین میں ترمیم کئے بغیر فوجی عدالتوں کا مستقل قیام موجودہ عدلیہ اور آئین سے متصادم ہے ۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر حامد علی خان ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں کا قیام آئین اور قانون کے خلاف اور عدلیہ سے ماورا ہے۔

پاسبان پاکستان کے صدر الطاف شکور نے کہا ہے کہ عدالتی تحقیقات میں فوج اور ایجنسیاں مدد ضرور کریں لیکن فیصلے جج کریں اگر فوجی عدالتوں نے ہی فیصلے کرنے ہیں تو پھر ججوں کو لڑنے کیلئے میدان جنگ میں بھیج دیا جائے ۔ معروف صحافی ،کالم نگار و ایڈیٹر روزنامہ ایکسپریس طاہر نجمی نے کہا ہے کہ سب کی خواہش ہے کہ سانحہ پشاور کے ذمہ داران کو کڑی سزا ملنی چاہئے لیکن ہوش کا دامن ہمیں نہیں چھوڑنا چاہئے ۔

(جاری ہے)

جامع بنوریہ کے مہتمم مفتی نعیم نے کہا ہے کہ فوجی عدالتیں مغرب کی ایما پر بن رہی ہیں داڑھی والے نشانہ بنیں گے ،ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وائس چیئرمین اسد اقبال بٹ ایڈوکیٹ نے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں کے بجائے سسٹم میں اصلاحات لائی جائیں ،کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر بیرسٹر صلاح الدین نے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں کے قیام پر شدید تحفظات ہیں ،ان خیالات کا اظہار پاسبان پاکستان کے زیر اہتمام کراچی پریس کلب میں ”فوجی عدالتوں کا قیام عدلیہ کی ناکامی کا مظہر ہے “ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کیا ،اس موقع پر پاسبان پاکستان کے جنرل سیکریٹری عثمان معظم ،کراچی بار ایسوسی ایشن کے نومنتخب صدر نعیم الدین قریشی ایڈوکیٹ ، کراچی پریس کلب کے سابق صدر امتیاز خان فاران اور سینئر صحافی عارف مصطفی نے بھی خطاب کیا ۔

تفصیلات کے مطابق پاسبان پاکستان کے زیر اہتمام کراچی پریس کلب میں منعقدہ سیمینار سے سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان سعیدالزماں صدیقی نے کہا ہے کہ آئین میں ترامیم کئے بغیر قائم ہونی والی موجودہ فوجی عدالتوں کا حشر بھی میاں نواز شریف کے 1998ء کے دور حکومت میں فوجی عدالتوں کے قیام کے اعلان کی طرح ہی ہوگا ،انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی سپریم کورٹ آف پاکستان میں فوجی عدالتوں کے قیام کو چیلنج کردیا گیا تھا ،محرم علی بخلاف حکومت پاکستان کیس میں سپریم کورٹ نے رولنگ دی تھی کہ فوجی عدالتیں ،موجودہ عدالتی نظام اور آئین پاکستان سے متصادم ہیں یہ بنادی گئیں تو بھی کارگرثابت نہیں ہونگی ، حکومت نئے سرے سے فوجی عدالتوں کا قیام چاہتی ہے تو اسے پہلے آئین میں ترامیم کرنا ہوں گی اور فوجی عدالتوں کو ہائیکورٹ کے ماتحت رکھنا ہوگا ورنہ فوجی عدالتوں کے قیام کا صاف مطلب یہی ہے کہ آپ کو ملک کے موجودہ عدالتوں کے نظام پر اعتماد نہیں ،جسٹس سعید الزماں صدیقی نے کہا کہ فوجی عدالتیں آئین کی آرٹیکل 175 کے منافی ہیں آئین کے آرٹیکل 245کے تحت حکومت ضرورت پڑنے پر افواج پاکستان سے مدد طلب کرسکتی ہے اور انہیں خاص مدت تک بلا سکتی ہے اس سلسلے میں قانون سازی بھی کرسکتی ہے لیکن فوجی عدالتیں مستقل طور پر قائم نہیں کر سکتی ۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر حامد علی خان ایڈوکیٹ نے پاسبان کے سیمینار سے ٹیلیفون پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں کا قیام آئین اور قانون کے خلاف اور عدلیہ سے ماورا ہے۔ماضی کی تاریخ میں فوجی عدالتوں کا تجربہ موجود ہے جسے 1998میں سپریم کورٹ آف پاکستان خلاف آئین قرار دے چکی ہے ۔ گزشتہ مارشل لاؤں کے دور میں فوجی عدالتوں کا ریکارڈ اور اُن کے فیصلے اس بات کے شاہد ہیں کہ قوم کو درپیش مسائل کا حل فوجی عدالتوں میں نہیں ہے ۔

یہ فیصلے بھی پہلے متنازعہ رہے ہیں اس کی بجائے ہمیں اپنے عدالتی نظام کو خامیوں سے پاک کرکے بہترین اور سستے انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق بنانا ہوگا۔ سیمینار سے پاسبان پاکستان کے صدر الطاف شکور نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاسبان نے کسی بھی سیاسی جماعت کو اس سیمینار میں دعوت نہیں دی کیونکہ یہ سب سیاسی جماعتیں غیر آئینی ملٹری کورٹ کو سپورٹ کررہی ہیں ،انہوں نے کہا کہ عدالتی تحقیقات میں افواج پاکستان اور ایجنسیز ہر ممکن مدد کریں لیکن فیصلوں کا احتیار ججوں کو ہونا چاہئے اس لئے کہ کرپٹ پولیس کیسوں کو خراب کرتی ہے اور ججز صاحبان خود تو فیلڈ میں تفتیش کرنے سے رہے اگر آرمی افسران جج صاحبان کی جگہ سنبھال لیں گے تو ججوں کو میدان جنگ میں لڑنے کیلئے بھیج دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ آرمی اور عوام کو لڑانے کی بیرونی سازش کوپاسبان ناکام بنادے گی ،فوج ملک کی سرحدوں کی محافظ اور پاکستانی عوام کی اپنی فوج ہے چند افسران کی غلطیوں اور حماقتوں کو جواز بناکر فوج کے خلاف زبان درازی محب وطن پاکستانیوں کو زیب نہیں دیتا۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ایٹمی اثاثے درحقیقت دشمن کا پہلا ہدف ہیں حالات کو ابتر کرکے ان تک رسائی دشمن کی خواہش ہے ،پاکستانی افواج اور حفیہ ادارے ہمارے اپنے اور عوام کی حفاظت کیلئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ PPOکے نتائج بھی سب نے دیکھ لئے پولیس بے لگام گھوڑا بن چکی ہے ،فوجی عدالتیں مزید خرابی اور فوج کی ساکھ اور وقار کو نقصان پہنچانے کا باعث بنیں گی ۔ پاسبان پاکستان کے زیر اہتمام کراچی پریس کلب میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے معروف صحافی کالم نگار و ایڈیٹر رونامہ ایکسپریس طاہر نجمی نے کہا کہ سانحہ پشاور سے پوری قوم صدمے میں ڈوبی ہوئی ہے اور ہرفردکی خواہش ہے کہ ذمہ داروں کوکڑی سزا ملنی چاہئے لیکن اس موقع پرہمیں ہوش کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے اور ایسے دلخراش سانحات سے بچنے کیلئے نظام کو بہتر بنانے کی جانب توجہ دینی چاہئے ،انہوں نے کہا کہ نظام انصاف ایسا ہونا چاہئے کہ جس سے مجرم کو تو یقینی سزا ملے لیکن کوئی بے گناہ اس کی زدمیں نہ آئے ۔

ممتاز عالم دین و جامع بنوریہ کے متہمم مولانا مفتی نعیم نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتیں ہوں یا موجودہ عدالتیں کہیں سے بھی عام آدمی کو انصاف نہیں ملتا ،آصف علی زرداری کا بیان قابل غور ہے کہ فوجی عدالتوں میں سیاستدانوں کو نہیں لایا جائے گا جس کا صاف اور واضح مطلب ہے کہ فوجی عدالتیں مغرب کی ایما پر صرف داڑھی والوں اور مذہبی لوگوں کو نشانہ بناکے لئے قائم کی جارہی ہے ،انہوں نے کہا کہ جب ہزاروں پارکوں اور میدانوں پر قبضہ مافیا کے خلاف کاروائی نہ کی جائے اور صرف مساجد اور مدرسوں کو گرانے کی بات کی جائے تو پھر یہ نا انصافی ہے ۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وائس چیئرمین اسد اقبال بٹ ایڈوکیٹ نے کہا کہ بدقسمتی کی بات ہے کہ سیاسی جماعتوں نے آل پارٹیز کانفرنس میں فوجی عدالتوں کی حمایت کردی اور اب باہر نکل کر الٹی سیدھی تاویلات کررہے ہیں ،انہوں نے کہا کہ سابقہ مارشل لاؤں کی فوجی عدالتوں کی سزائیں بھی متنازعہ رہی ہیں اب خطرہ ہے کہ یہ فوجی عدالتیں سندھ ،بلوچستان کے سیاسی لوگوں کے خلاف استعمال ہونگی ،انہوں نے کہا کہ کتنی بڑی ظلم اور ذیادتی ہوگی کہ اگر کہیں پر چند مزدور اپنے حق کیلئے مظاہرہ کریں اورپولیس ان پر لاٹھی چارج کرے اور کوئی مزدور پولیس والے کو پتھر ماردے تو آپ اسے دھشت گرد قرار دیکر فوجی عدالت سے سزا دلوادیں ،انہوں نے کہا کہ پہلے دھشت گردی کی تعریف متعین کی جائے ،پہلے آپ اپنے عدالتی نظام میں اصلاحات لائیں ،اپنی پولیس کی تحقیقات کو جدید اور سائینٹیفک کریں،ججوں ،وکلاء اور گواہان کو تحفظ دیا جائے تودھشت گردی خود بخود ختم ہوجائے گی ،انہوں نے کہا کہ غیر آئینی فوجی عدالتیں بن گئیں تو اس کی ذمہ دار سیاسی جماعتیں کہلائیں گی ۔

پاسبان کے زیر اہتمام کراچی پریس کلب پر منعقدہ سیمینار سے کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر بیرسٹر صلاح الدین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں کے قیام پر تحفظ ہیں اس بات کو تعین کون کریگا کہ کونسا کیس موجودہ عدالتوں میں جائے گا اور کونسا کیس فوجی عدالتوں میں ،انہوں نے کہا کہ بغیر سوچے سمجھے اور سپریم کورٹ آف پاکستان ،بار ایسوسی ایشن اور وکلاء سے مشاورت کے بغیر فوجی عدالتوں کا قیام موجودہ عدلیہ سے تصادم کے مترادف ہوگا ،انسداد دھشت گردی کی عدالتوں کا تجربہ بھی ناکا م ہوچکا ہے ، انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے قیام کے بجائے موجودہ عدالتوں اور اداروں میں خامیوں کو دور کیا جائے ۔

معروف صحافی سید عارف مصطفیٰ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردی کے عفریت سے نپٹنے کیلئے خرابی کی اصل جڑ کو پکڑیں، اوٴل تو امریکا کی مسلط کردہ جنگ میں مزید سینگ پھنسانے سے گریز کریں اور اس سے باہر آنے کی کوشش کریں۔ دہشتگردی کے ماحول کا خاتمہ کرنے کیلیئے ضروری ہے کہ ہرطرح کی دہشتگردی کو جڑسے اکھاڑ پھینکا جائے اور سیاسی گروہوں کی آپسی لڑائی میں مارے جانے کے عمل کو بھی دہشتگردی سمجھا جائے نیز میڈیا کو دھمکیاں دے کر من مانی نشریات دکھانے پہ مجبور کرنے کو بھی دہشتگردی کی ذیل میں شمار کیا جائے ،،، انہوں نے اس امر پہ دکھ کا اظہار کیا کہ فوجی افسروں کو عدالت یامور میں ملوث کرکے عدلیہ کو بائی پاس کیا جارہا ہے، انہوں نے یہ بھی تجویز کیا کہ تاہم فوج سے تفتیشی عمل اور مجرموں کی سرکوبی میں مدد لینے میں کوئی حرج نہیں۔

کراچی پریس کلب کے سابق صدر امتیاز خان فاران نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا کوئی بھی قدم قانون سازی کے جمہوری عمل کے بغیر متنازعہ رہے گا۔ ملٹری کورٹس کے نام سے ہی ذہنوں میں ماوارائے قانون سزاؤں کا تصور ابھرتا ہے اس لئے زیادتی کی صورت میں ایک اچھا عمل بھی منتازعہ بن سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹائم فریم دینا بھی ضروری ہے، حکومت کو زیادتی کے خدشات کو ہر صورت میں مدنظر رکھنا چاہئے۔ عدلیہ کو بائی پاس کرنے کی صورت میں نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خدشہ موجود رہے گا۔ حکومت جو قدم اٹھانے جارہی ہے اگر اس کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جاسکے تو عوام میں مایوسی پھیلے گی۔