پاکستان میں چھپنے والے اخبارات کی قدریں بھی تبدیل ہو چکی ہیں جس کا جو جی چاہتا ہے چھاپ دیتا ہے ، میاں فاروق نذیر

جمعہ 26 دسمبر 2014 18:56

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔26دسمبر 2014ء) پاکستان میں چھپنے والے اخبارات کی قدریں بھی تبدیل ہو چکی ہیں جس کا جو جی چاہتا ہے چھاپ دیتا ہے جس کے خلاف چھاپتے ہیں اس غریب کا موقف بھی لینے کی زحمت نہیں کرتے۔ 6000 قیدیوں میں سے اگر 22 قیدیوں کو بی کلاس دی گئی ہے تو یہ ایک فی صد بھی نہیں بنتی۔ مگر صحافی حضرات بادشاہ ہیں اور اپنی مرضی کے مالک ہیں ہمارے لئے سب ہی محترم ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات میاں فاروق نذیر نے گزشتہ روز آن لائن سے گفتگو کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک زمانہ میں خود بھی صحافی رہ چکا ہوں اس وقت اگر کسی ادارہ یا کسی شخص کے خلاف خبر چھاپی جاتی تھی تو اس کے خلاف ثبوت کے خلاف تمام دستاویزات اکٹھی کرنے کے علاوہ اس کا موقف بھی لیا جاتا تھا۔

(جاری ہے)

مگر آج صحافتی اقدار بدل چکی ہیں آج جس کا جو جی چاہتا ہے چھاپ دیتا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

جمعہ کے روز کسی اخبار مین شائع ہونے والی خبر کے 22 قیدیوں کو میرٹ کے خلاف بی کلاس دی گئی ہے کہ حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس وقت 6000 ہزار قیدی ہیں ان میں سے اگر 22 قیدیوں کو سہولت فراہم کی گئی ہے تو وہ ایک فیصد بھی نہیں بنتی۔ انہوں نے جیل میں بی کلاس کے حوالے سے بریف کرتے ہوئے بتایا کہ جیل کے قانون کے مطابق بی کلاس حاصل کرنے والا قیدی تیکس گزار ہو کم از کم گریجویٹ ہو اور وہ ہر طریقہ سے قوائد و ضوابط پر پورا اترتا ہو اس حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب کی سخت ہدایات ہیں کہ کسی بھی قیدی کو میریٹ سے ہٹ کر سہولت فراہم نہ کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آپ ہمارے خلاف اگر کوئی خبر ہے تو ضرور لگائیں مگر ایک مرتبہ ہمارا موقف بھی لے لیں۔ ممکن ہے کہ جو اطلاعات آپ کے پاس آتی ہے وہ صرف ذاتی دشمنی یا مخالفت کی وجہ سے پہنچتی ہوں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر جیلوں کی سکیورٹی کو بڑھا دیا گیا ہے۔ جیمرز سسٹم کی رینج کو بڑھا دیا گیا ہے۔

پھانسی پانے کی سزا کے قیدیوں کی سکیورٹی میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ میں خود صحافی برادری کی قدر کرتا ہوں صرف ایک درخواست ہے کہ مجھ سے متعلق کسی بھی خبر کی اشاعت سے قبل مجھ سے ایک مرتبہ رابطہ کر لیں پھر جو کچھ بھی آپ بہتر سمجھیں شائع کر دیں مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ مگر ایسی خبریں جن کا وجود نہ ہو مجھ سے منسوب کرنے زیادتی ہو گی۔

متعلقہ عنوان :