چیف جسٹس کی زیرصدارت اعلیٰ سطحی اجلاس،

دہشت گردی مقدمات کو الگ کرکے سماعت روزانہ کی بنیاد پرکرنے کا فیصلہ، سانحہ پشاورپرپوری قوم دکھی ہے، یہ قومی سانحہ تھا ،ہم قوم کے جذبات اور خاص طور پرغمزدہ خاندانوں کے دکھ میں شریک ہیں ، چیف جسٹس کا اظہار خیال، انسداد دہشت گردی عدالتوں کو ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کی مشاورت سے وہاں منتقل کیا جائے گا جہاں سب کو آسانی ہو، ہائیکورٹس کے مانیٹرنگ جج ماہانہ کارکردگی کا جائزہ لینگے ، لاء اینڈ جسٹس کمیشن کو انسداد دہشت گردی قانون پر نظر ثانی اوراسے موثر بنانے کیلئے سفارشات پیش کرنے کی ہدایت

بدھ 24 دسمبر 2014 18:33

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔24دسمبر 2014ء) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ناصر الملک کی زیرصدارت اعلیٰ سطحی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ دہشت گردی کے مقدمات کو الگ کرکے ان کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہوگی،انسداد دہشت گردی عدالتوں کو ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کی مشاورت سے ایسی جگہ منتقل کیا جائے گا جہاں سب کو آسانی ہو،انسداد دہشت گردی عدالتوں کے لئے ہائیکورٹس میں بنائے گئے مانیٹرنگ جج ماہانہ بنیادوں پر ان کی کارکردگی کا جائزہ لیں گے جبکہ لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان سیکرٹریٹ انسداد دہشت گردی قانون پر نظر ثانی کرے گا اور سفارشات پیش کرے گا تا کہ اسے مزید موثر بنایا جاسکے اور چیف جسٹس ناصر الملک نے کہا ہے کہ سانحہ پشاور نے سب کو متاثر کیا ہے ،پوری قوم اس پر دکھی ہے، یہ قومی سانحہ تھا ۔

(جاری ہے)

ہم قوم کے جذبات اور خاص طور پرغمزدہ خاندانوں کے دکھ میں شریک ہیں ۔ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز اور سپریم کورٹ میں ہائیکورٹس کے انچارج مانیٹرنگ ججز کا اجلاس بدھ کو یہاں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ناصر الملک کی صدارت میں ہوا جس میں پاکستان بھر کی مختلف عدالتوں میں دہشت گردی کے مقدمات نمٹانے کے بارے میں غور کیاگیا ۔اجلاس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انور خان کاسی ،سندھ ہائی کورٹ چیف جسٹس مقبول باقر ،پشاور ہائی کورٹس کے چیف جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل،لاہور ہائی کورٹ چیف جسٹس خواجہ امتیاز احمد، بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس غلام مصطفی مینگل ،اسلام آباد ہائی کورٹ میں مانیٹرنگ جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی ،سندھ ہائی کورٹ کے انسداد دہشت گردی کے مانیٹرنگ جج جسٹس محمد علی مظہر،پشاور ہائی کورٹ کے مانیٹرنگ جج جسٹس یحییٰ آفریدی ،لاہور ہائی کورٹ کے مانیٹرنگ جج جسٹس منظور احمد ملک اور بلوچستان ہائی کورٹ کے مانیٹرنگ جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے شرکت کی ۔

چیف جسٹس نے شرکاء کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس ہنگامی بنیادوں طور پر بلائے گئے اجلاس میں شرکت پر ان کا شکریہ ادا کیا ۔اجلاس کا مقصد پشاور میں گزشتہ ہفتے دہشت گردی کے افسوس ناک سانحہ کے بعد انسداد دہشت گردی عدالتوں میں زیر التواء مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کا جائزہ لینا تھا۔فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ ہر شخص نے اس واقعہ کی مذمت کی ہے اس نے سب کو متاثر کیا ہے ۔

پوری قوم اس پر دکھی ہے اور یہ قومی سانحہ تھا ۔ہم قوم کے جذبات میں شریک ہیں اور خاص طور پرغمزدہ خاندانوں کے دکھ میں شریک ہیں ۔اللہ تعالیٰ شہیدوں کو جنت میں جگہ دے اور متاثرین خاندانوں کو اس ناقابل تلافی نقصان کو برداشت کرنے کا حوصلہ دے۔انہوں نے کہا کہ واقعہ کے فوراً بعد انہوں نے پشاور کا دورہ کیا ۔وکلاء اور ہسپتال میں داخل طلباء سے ملے جو اس سانحہ میں بچ گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ انسداد دہشت گردی عدالتوں کی نگرانی کا ایک طریقہ کار موجود ہے ۔ہر ہائی کورٹ میں ایک جج انہیں مانیٹر کرتا ہے جبکہ سپریم کورٹ میں چار جج چاروں صوبوں کی مانیٹرنگ کے لئے مقرر کئے گئے ہیں ۔ہائی کورٹس اور انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق یہ بتایا گیا ہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں بم دھماکوں ،عسکریت پسندی اور دہشت گردی سے متعلقہ مقدمات کی تعداد 10 سے15 فیصد ہے جبکہ ان عدالتوں میں موجود باقی مقدمات ایسے ہیں جو تکنیکی طور پر دہشت گردی کی تعریف میں آتے ہیں ۔

اجلاس میں اس معاملے کا مختلف زاویوں سے جائزہ لینے کے بعد کئی فیصلے کئے گئے جن کے تحت عسکریت پسندی کے مقدمات کو ترجیح دی جائے گی اور انہیں روزانہ کی بنیاد پر سنا جائے گا ۔انسداد دہشت گردی عدالتوں کے جج گواہوں ،تفتیشی اور استغاثہ کے اداروں اور وکلاء صفائی کو مخصوص وقت دیں گے تاکہ بعد میں ان کیسوں کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی جا سکے جہاں تک بلوچستان صوبہ اور مالاکنڈ ڈویژن کا تعلق ہے جہاں ایف سی اور لیویز کے ساتھ ساتھ ریونیو حکام مقدمات درج اور ان کی تفتیش کرتے ہیں متعلقہ حکومتی عہدیداراس امر کو یقینی بنائیں گے کہ ایسے پولیس افسران جو مقدمات کی رجسٹریشن اور تفتیش کے ماہر ہوں ان کی خدمات وہاں حاصل کی جائیں۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ہائی کورٹس کے مانیٹرنگ جج ماہانہ اجلاس منعقد کریں گے جس میں تمام متعلقہ حکام شریک ہوں گے جن میں انسداد دہشت گردی عدالتوں کے پریذائیڈنگ افسران ،تفتیشی اداروں کے نمائندے ،جیل حکام ،محکمہ داخلہ کے نمائندے شامل ہوں گے تا کہ رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے ۔ماہانہ اجلاسوں کی رپورٹ سپریم کورٹ کے متعین کردہ مانیٹرنگ جج کو بھجوائی جائیں گی۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ صوبائی حکومتیں متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی مشاورت سے انسداد دہشت گردی عدالتیں ایسی جگہ قائم کریں گی جہاں سب کو آسانی ہو ۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹس میں زیرالتواء اپیلوں میں سے دہشت گرد ی اور دیگرمقدمات کو الگ الگ کیا جائے گا اور دہشت گردی مقدمات کی اپیلوں کو ترجیحی بنیادوں پر سنا جائے گا۔

متعلقہ چیف جسٹس ان مقدمات کو الگ الگ کرنے کا عمل جلد از جلد مکمل کریں گے ۔اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان سیکرٹریٹ انسداد دہشت گردی قانون پر نظر ثانی کرے گا اور سفارشات پیش کرے گا تا کہ ان پر تیزی سے عملدرآمد کے لئے انہیں متعلقہ حکام کو بھجوایا جا سکے ۔ان اقدامات کے بارے میں رپورٹس سپریم کورٹ کے فاضل مانیٹرنگ ججوں اور چیف جسٹس آف پاکستان کو بھجوائی جائیں گی تا کہ باقاعدہ طور پر اجلاسوں کو منعقد کر کے ان کا جائزہ لیا جائیگا۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں دہشت گردی عدالتوں میں ججوں کی سیکورٹی کے معاملات پر متعلقہ ہائی کورٹس کے انچارج ججز نے تحفظات کااظہارکرتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ عدالتوں کوفول پروف سیکورٹی دینے کی ضرورت ہے ،تفتیش کاراور استغاثہ مقررہ تاریخوں پر عدالتوں میں نہیں آتے جس کی وجہ سے مقدمات کی سماعت التواء کاشکار ہوتی ہے ۔دہشت گردی او رعام مقدمات میں کسی بھی قسم کاامتیازنہیں رکھاجاتااس لیے بھی سماعت میں تاخیر ہوتی ہے دہشت گردی قانون پر بھی نظرثانی کی بے حدضرورت ہے ،عدالتیں اپنی حدتک مقدمات تونمٹارہی ہے ایسے میں مقدمات میں پیش ہونے والے وکلاء کوبھی ان کی ذمہ داریوں کااحساس دلاناضروری ہے ذرائع نے آن لائن کوبتایاکہ اجلاس میں دہشت گردی کے مقدمات جلد نمٹانے کے طریقہ کار پرغور کیا گیا اور اہم فیصلے کئے گئے۔

چیف جسٹس پاکستان کوبتایاگیاکہ دہشت گردی عدالتوں اور ججوں کوفول پروف سیکورٹی کی فراہمی انتہائی ضروری ہے اگر ایسانہیں ہوگاتووہ آزادی اور قانون کے مطابق مقدما ت کے فیصلے کیسے کرسکیں گے جس پر چیف جسٹس سمیت تمام شرکاء نے اتفاق کیا۔

متعلقہ عنوان :