کیا واقعی پاکستان ”اچھے طالبان“ کو چھوڑ سکتا ہے ؟امریکی میڈیا کا سوال،

اگرچہ فوج نے طالبان کیخلاف بڑی کارروائیاں کی ہیں مگر اب بھی یہ سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ کیا پاکستان نے پشاور کے واقعہ سے سبق سیکھا ہے یا نہیں ؟واشنگٹن پوسٹ

منگل 23 دسمبر 2014 23:16

واشنگٹن( اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 23 دسمبر 2014ء ) وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی طرف سے اچھے اور برے طالبان کی تمیز کو ختم کرنے کے واضح اعلان کے باوجود امریکی میڈیا نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا واقعی پاکستان اچھے طالبان کو چھوڑ سکتا ہے ؟ امریکہ کے سب سے بڑے اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اسی عنوان سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں سانحہ پشاور کو چھوٹانائن الیون قرار دیا جارہاہے اور وزیراعظم نے یہ کہا ہے کہ دہشتگردی اور فرقہ واریت ملک کیلئے کینسر ہیں اور وقت آگیا ہے کہ ان کا خاتمہ کیاجائے ۔

اخبار لکھتا ہے کہ پاک فوج طالبان کے مشتبہ ٹھکانوں پر مسلسل فضائی حملوں میں مصروف ہے جبکہ حکومت نے سزائے موت پر عملدرآمد کو روکنے کا اعلان بھی واپس لے لیا ہے اور اب تک سنگین جرائم میں ملوث 6مجرموں کو تختہ دار پر لٹکایا جا چکا ہے اورمزید پچاس کو لٹکائے جانے کا امکان ہے ۔

(جاری ہے)

اخبار لکھتا ہے کہ پاکستانیوں کی واضح اکثریت چاہتی ہے کہ طالبان کو ان کے جرائم کی سزا دی جائے اور یہ بات بھی واضح ہے کہ ملک کے عوام یہ بھی سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورتحال ان کی اپنی پیدا کردہ ہے پاکستان ماضی میں افغانستان میں اپنے مقاصد کیلئے طالبان کو استعمال کرتا رہا ہے جبکہ اب یہی عسکریت پسند خود پاکستانی حکومتی اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں ۔

اخبار لکھتا ہے کہ اگرچہ فوج کی طرف سے طالبان کیخلاف بڑی کارروائیاں کی گئی ہیں مگر اب بھی یہ سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ کیا پاکستان نے پشاور کے واقعہ سے سبق سیکھا ہے یا نہیں ؟ اخبار نے ممبئی دھماکے کے مبینہ ماسٹر مائنڈ ذکی الرحمن لکھوی کی ضمانت کے فیصلے پر بھی تنقید کی ہے

متعلقہ عنوان :