افراط زر میں کمی اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کا نتیجہ ہے،ملک سے سرمائے کے غیرقانونی انخلا کو روکنا قومی احتساب بیورو اور ایف بی آئی کا کام ہے،؛گورنر سٹیٹ بنک،

توانائی بحران،دہشت گردی اور امن و امان کے مسائل برآمدات میں کمی کے بنیادی اسباب ہیں، بھارت کے ساتھ براہ راست ٹرانزیکشن کے لیے بات چیت اگلے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے؛اشرف محمود وتھرا

منگل 23 دسمبر 2014 19:14

کراچی( اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 23 دسمبر 2014ء) گورنراسٹیٹ بینک آف پاکستان اشرف محمود وتھرا نے کہا ہے کہ افراط زر میں کمی اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کا نتیجہ ہے، دیگر عوامل کو نظرانداز کرکے صرف انٹرنیشنل مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت میں کمی اور اتارچڑھاوٴ کی بنیاد پر شرح سود کم نہیں کی جاسکتی،ملک سے سرمائے کے غیرقانونی انخلا کو روکنا قومی احتساب بیورو اور ایف بی آئی کا کام ہے، توانائی بحران اور بعض علاقوں میں دہشت گردی اور امن و امان کے مسائل ایکسپورٹ میں کمی کے بنیادی اسباب میں شامل ہیں، سارک ملکوں کے مابین رقوم کی براہ راست منتقلی کے لیے علاقائی بینکنگ فنانس پے منٹ سسٹم پر کام جاری ہے، بھارت کے ساتھ براہ راست ٹرا نزیکشن کے لیے بات چیت اگلے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے،کے اے ایس بی بینک بند نہیں ہوا، 2 بینک ڈیوڈیلیجنس کررہے ہیں، تیسرے بینک نے بھی ڈیوڈیلیجنس کی درخواست جمع کرادی ہے جبکہ 2 سے 3 مزید بینک بھی اس ضمن میں بات چیت کے مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں، کے اے ایس بی کا معاملہ 6 ماہ میں حل کرلیا جائے گا،کے ایس بی بینک کے کھاتے داروں کو چھ ماہ سے پہلے ہی اکاؤنٹس کی رقم مل جائے گی، شرح سود میں کمی کیلئے صرف تیل کی قیمت میں کمی کافی نہیں ہوتی تاہم کسی بھی کمی کے امکان کا جائزہ لیا جائے گا۔

(جاری ہے)

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر اشرف محمود وتھرا نے گزشتہ روز فیڈریشن ہاوٴس کے دورے کے موقع پر اجلاس میں تاجروں کے سوالات پر کہا کہ اگرچہ بینکوں کے مجموعی اثاثہ جات کے مقابلے میں ٹریڑی بلز اور سرکاری بانڈز میں سرمایہ کاری 1 فیصد کے بینچ مارک سے بلند ہے تاہم بینکوں کے پاس نجی شعبے کی فنانسنگ کے لیے خاطر خواہ سرمایہ موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ سوا سے ڈیڑھ سال کے دوران اسٹیٹ بینک کا مانیٹری پالیسی اسٹانس کافی سود مند رہا اور اس کے نتیجے میں افراط زر میں کمی ہوئی، مانیٹری پالیسی قیمتوں کے استحکام، معاشی اور مالیاتی صورتحال کو دیکھتے ہوئے مستقبل کی پیش بینی کے طور پر اختیار کی جاتی ہے، حالیہ دنوں میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی اور اتارچڑھاوٴ شرح سود میں کمی کے لیے کافی نہیں، شرح سود میں کمی کا تعلق دیگر عوامل سے بھی ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے پچھلی مانیٹری پالیسی میں ریٹ میں کمی کی اور آئندہ کمی کے لیے گنجائش کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔اس موقع پر اسٹیٹ بینک کے ماہرین نے تاجر برادری کو مانیٹری پالیسی کے تعین کے طریقہ کار اغراض و مقاصد سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ مانیٹری پالیسی معیشت میں سرمائے کی طلب اور رسد کے فرق، توازن ادائیگی، تجارت سے متعلق اندازوں اور قرضوں کی ادائیگیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مرتب کی جاتی ہے، مانیٹری پالیسی ماضی سے نہیں بلکہ مستقبل کی صورتحال سے ڈیل کرتی ہے، مانیٹری پالیسی کا فیصلہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا خودمختار بورڈ آف ڈائریکٹر مانیٹری پالیسی ایڈوائزری کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں کرتا ہے جس میں نجی شعبے کو نمائندگی حاصل ہے۔

برآمد کنندگان کو دی جانے والی سہولتوں کے بارے میں اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ایکسپورٹ ری فنانس ریٹ کم کیا گیا جبکہ ایکسپورٹ کے شعبے میں اعلیٰ کارکردگی پر ری بیٹ کی سہولت بھی دی جاتی ہے جس کے لیے 400 ملین روپے کی گنجائش موجود ہے، حکومت کی جانب سے دی جانے والی ری بیٹ اس سے الگ ہے، اسی طرح اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کے لیے بھی ری فنانس ریٹ میں کمی کی گئی ہے اور حکومت بھی 2.5 فیصد تک ری بیٹ فراہم کررہی ہے جبکہ حکومت نے ایکسپورٹ کے لیے لانگ ٹرم فنانسنگ کی سہولت بھی فراہم کی ہے۔

تاجر برادری کی جانب سے ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے مالی مراعات اور سہولتوں پر اٹھائے گئے سوال پر گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی ترغیبات کسی ایک شعبے کے لیے مخصوص نہیں، ایس ایم ایز کے لیے بھی قرضوں کے حصول کے لیے یکساں مواقع موجود ہیں تاہم پاکستان میں ایس ایم ایز کے لیے مجموعی بینکاری اثاثوں کے مقابلے میں قرضوں کا تناسب 4 فیصد تک محدود ہے، دیگر ملکوں میں یہ شرح 15 سے 20 فیصد ہے۔

اسٹیٹ بینک نے بینکوں کی جانب سے ایس ایم ایز کو فنانسنگ کے لیے کریڈٹ گارنٹی رسک کی سہولت مہیا کی ہے جس کے تحت ایس ایم ایز کو جاری کردہ 40 فیصد تک کے قرضوں کو رسک گارنٹی فراہم کی جاتی ہے، اسٹیٹ بینک، اسمال اینڈ میڈیم ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور ایس ای سی پی نے ایس ایم ایز کی ترقی کے لیے پروگرام مرتب کیا ہے جس کے تحت سرگرمیاں آئندہ سال سے شروع کردی جائیں گی، اسٹیٹ بینک نے ایس ایم ایز فنڈ بھی مختص کیا ہے۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ پاکستان میں ہاوٴسنگ فنانس افریقی ملکوں سے بھی کم ہے، عام طور پر مجموعی اثاثوں کے مقابلے میں ہاوٴسنگ فنانس کا تناسب 20 فیصد ہے جو پاکستان میں 2فیصد تک محدود ہے، ہاوٴسنگ فنانس کے پھیلاوٴ میں پراپرٹی کو دوبارہ قبضے میں لینے (ری پزیشن) کے لیے قانون کا فقدان بڑی رکاوٹ ہے جس کے لیے جامع مسودہ حکومت کو کافی عرصہ قبل پیش کیا جاچکا ہے۔

اسٹیٹ بینک نے ایچ بی ایف سی ایل میں اپنے 14 ارب روپے کے واجبات کو ایکویٹی میں بدل دیا ہے جس سے اس کے پاس سرمائے کی فراہمی میں بہتری آئی ہے، اس کے علاوہ مارگیج فنانس کمپنی بھی تشکیل دی جارہی ہے تاکہ ہاوٴسنگ فنانس کے لیے طویل مدت کی فنانسنگ مہیا کی جاسکے۔کمرشل بینکوں میں فراڈ کے ذکر پر گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ایڈوانس رولز اور ریگولیشنز کے حامل ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں پاکستان میں فراڈ اور جعلسازی کا تناسب انتہائی کم ہے۔

متعلقہ عنوان :