میر گل خان نصیر کی سوچ و فکر اور تحریروں نے خطے کی سیاسی معاشی اور سماجی صورتحال پر گہر ے نقوش ثبت کئے ہیں ،ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ،

بلوچستان اور بین الاقوامی سطح پر بھی ان کے چاہنے والوں ، ان کی تحریروں اور افکار کو ماننے والوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے، وزیر اعلیٰ بلوچستان

جمعہ 5 دسمبر 2014 23:38

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔5دسمبر 2014ء ) وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ میر گل خان نصیر کی سوچ و فکر اور تحریروں نے خطے کی سیاسی معاشی اور سماجی صورتحال پر گہر ے نقوش ثبت کئے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک بھر اور بین الاقوامی سطح پر بھی ان کے چاہنے والوں ، ان کی تحریروں اور افکار کو ماننے والوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے میر گل خان نصر کے جشن ولادت کی صد سالہ تقریبات کے سلسلے میں منعقدہ بین الاقوامی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا، جس میں دنیا کے مختلف ممالک اور ملک اور صوبے کے دیگر حصوں سے آئے مفکروں اور دانشوروں نے میر گل خان نصیر سے اپنے مقالوں کے ذریعہ اظہار عقیدت پیش کیا، وزیر اعلیٰ بلوچستان نے بلوچی زبان میں اپنے مقالہ میں اپنے بچپن کے دنوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہیں سن و سال یاد تو نہیں لیکن انہیں اتنا یاد ہے کہ ان دنوں ایوب خان کے خلاف جلسہ جلوس ہو رہے تھے جن کا انعقاد بی ایس او اور نیشنل عوامی پارٹی کر رہی تھی اور اس احتجاج کا مقصد ون یونٹ کا خاتمہ تھا، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس احتجاج میں بلوچستان سب سے آگے تھا اور کیچ نے بھی اس سلسلے میں بھرپور کردار ادا کیا، انہوں نے بتایا کہ وہ بھی دیگر ہم عمر بچوں کے ساتھ ایک جلسے میں شریک ہوئے اور انہیں ان کے مرحوم بھائی عبدالغفار ندیم نے صورتحال کے مطابق گل خان نصیر کا شعر سنایا جس کا مفہوم تھا کہ قوم و وطن کے لیے آگے بڑھتے رہو اور اس نام اور عزت کی خاطر سردیا کرو، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ یہ شاعری پڑھ کر انہیں ایوب خان کے خلاف میر گل خان نصیر سے لگاؤ ہوا۔

(جاری ہے)

یہ سفر سکول سے بڑھتا ہوا میڈیکل کالج تک پہنچا اور مجھے محسوس ہوا کہ میر گل خان نصیر کی فکر اور سوچ میرے شعور کے اضافے کی بنیاد بن رہی ہے، انہوں نے کہا کہ میر گل خان نصیر سے میری لاشعوری دوستی اور ان کے دوستوں سے فکری طور پر لگاؤ کی بنیاد بلوچ اور بلوچستان تھا، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ میر گل خان نصیر اور ان کے دوستوں نے بلوچی قومی تحریک کی کٹھن ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھائی ، ایک طرف بلوچستان برطانوی سامراج کی نو آبادیاتی زنجیروں میں پھنسا ہوا تھا ، برطانوی سامراج نے بلوچستان کو ایران، افغانستان اور پاکستان میں تقسیم کیا ہوا تھا جبکہ بلوچ نے اپنی زمیں کی تقسیم کے خلاف پورے بلوچستان کو اپنے سر پر اٹھایا ہوا تھا، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس وقت کے حکمران بہرے اور اندھے تھے کہ وہ بلوچوں کے درد و تکلیف کو محسوس نہ کر سکے، اسی طرح پھر انگریز نے بلوچستان کو تقسیم کیا ، بلوچستان کی آزادی کے روشن ستاروں کو غلامی کے اندھیروں میں دھکیل دیا، انہوں نے کہا کہ بلوچ قائدین نے اتحاد بلوچاں، بلوچ لیگ، قلات نیشنل پارٹی، استمان گل، نیشنل پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم سے قوم اور حقوق کے لیے جدوجہد شروع کی اور کسی قربانی سے پیچھے نہیں ہٹے، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ان قائدین کی جوانی کے شاندار دن قید و بند میں گذرے اور آمریتوں کے غیض و غصب کا نشانہ بنے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ تحریک طویل ہے لیکن میر گل خان نصیر کا کا کردار انتہائی اہمیت رکھتا ہے اورانہوں نے میر غوث بخش بزنجو اور دیگر شعوری ساتھیوں کے ساتھ شعوری اور قومی جدوجہد میں ہو کر قید و بند کی صعبوتیں برداشت کیں، انہوں نے بلوچستان کی تاریخ کو یکجا کیا جو آج بلوچ قوم کے لیے ایک بہت بڑا تحفہ ہے، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ گل خان نصیر نے بلوچ قوم کو اپنی شاعری کی بنیاد پر بنایا قید وبند کے دوران کی جانے والی ان کی شاعری مظلوم بلوچوں کے لیے ایک گرانقدر تحفہ ہے انہوں نے بلوچ قوم کو وہ طاقت دی جس سے اس میں ظلم و جبر کا سامنا کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا، آج ہم میر گل خان نصیر کی شاعری ادب اور سوچ و فکر پر ریسرچ کر رہے ہیں، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ میر گل خان نصیر کو یاد کرنے اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ان کی سوچ و فکر کو منظم کرکے اپنایا جائے ، تاکہ بلوچ دنیا میں ایک نامدار قوم کی شکل میں سامنے آسکیں اور یہاں سے بھوک و افلاس، جہالت، آپس کے قتل و غارت گری اور بے روزگاری ختم ہو سکے، وزیر اعلیٰ نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ بلوچوں کو میر گل خان نصیر کی باتوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا کرے۔