کراچی،بھارت کی طرح بنگلہ دیش بھی پاکستان کے اربوں روپے کانادہندہ

ہفتہ 8 نومبر 2014 21:38

کراچی،بھارت کی طرح بنگلہ دیش بھی پاکستان کے اربوں روپے کانادہندہ

کراچی(اُردو پوائنٹ تاز ترین اخبار۔ 8نومبر 2014ء) بھارت کی طرح بنگلہ دیش بھی پاکستان کے اربوں روپے کانادہندہ ہے۔سقوط ڈھاکاسے قبل اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے مشرقی پاکستان کیلئے مالیاتی اداروں کو جاری کیے گئے قرضوں، ایڈوانسزاور تمسکات(کمرشل پیپرز)کی مدمیں بھاری مالیت کے واجبات4دہائیاں گزرنے کے باوجودوصول نہیں ہوسکے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان قیام پاکستان سے اب تک بھارت اورسقوط ڈھاکاسے اب تک بنگلہ دیش کے ذمے پاکستان کے اثاثوں اور واجبات کواپنے کھاتوں میں باقاعدگی سے درج کر رہاہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے حالیہ اعدادوشمارکے مطابق مالی سال 2013-14 کے اختتام تک بھارت پر پاکستان کے 7 دہائیوں سے مالیاتی اثاثوں کے واجبات کی مالیت 5ارب 86 کروڑ 68لاکھ روپے تک پہنچ چکی ہے جس میں 4ارب 36 کروڑ 35لاکھ روپے کاسونا، 55کروڑ 56لاکھ 87ہزار روپے کے پاؤنڈاسٹرلنگ، 23کروڑ51لاکھ 77ہزار روپے کی انڈین تمسکات(گورنمنٹ آف انڈیاسیکورٹیز) اور 48 لاکھ روپے سے زائدمالیت کے سکے اور 70کروڑ 76لاکھ روپے کے بھارتی کرنسی نوٹ شامل ہیں۔

(جاری ہے)

اسی طرح بھارت کوپاکستان کے لیے کرنسی نوٹوں کی طباعت کے لیے اداکیے گئے 4کروڑ روپے سے زائدکی وصولی بھی باقی ہے۔پاکستان کے حصے میں آنے والے اثاثوں کی ادائیگی کے معاملے پربھارتی افلاطون غیرسرکاری طورپر یہ جوازدیتے ہیں کہ پاکستان کے دولخت ہونے کے بعدان اثاثوں پربنگلہ دیش کابھی حق ہے۔ ان بھارتی افلاطونوں کے لیے عرض ہے کہ بنگلہ دیش خود پاکستان کے اربوں روپے کا نادہندہ ہے اورتقسیم کے بعدپاکستان کامرکزی بینک ان اثاثوں کا بنیادی حق دارتھا۔

رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کے ذمے پاکستان کے واجبات ہر گزرتے سال واجبات کی مالیت میں اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان کے بنگلہ دیش پرواجبات کوبنگلہ دیش کی 15کروڑ 72لاکھ سے زائدکی آبادی پرتقسیم کیاجائے توہر بنگلہ دیشی شہری 50روپے کاقرض داربنتا ہے۔ بھارت کے زیراثر بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت سقوط ڈھاکاکی سازش کی مزاحمت اورمملکت پاکستان کی حمایت کرنے والے عمررسیدہ افرادکو موت کی سزائیں دے کر اپناحساب چکتا کررہی ہے لیکن پاکستان کے اربوں روپے کے واجبات کی ادائیگی کی جانب کسی کی توجہ نہیں ہے۔

اسی طرح تقسیم ہندکے وقت اثاثوں کی تقسیم میں بدنیتی اورپاکستان کے حصے میں آنے والے مالی اثاثوں کی پاکستان کوعدم منتقلی کاتنازعہ بھی 7دہائیاں گزرنے کے باوجودجوں کاتوں برقرارہے۔تقسیم ہند کے وقت ریزرو بینک آف انڈیا کے مالی اثاثوں میں پاکستان کے حصے میں آنے والا سونا، پاؤنڈاسٹرلنگ، زیرگردش سکے اورگورنمنٹ آف انڈیاکے تمسکات پاکستان کوادا نہیں کیے گئے۔

قیام پاکستان کے ابتدائی چندسال میں دونوں ملکوں میں یکساں کرنسی رائج رہی۔ نوزائیدہ ملک پاکستان نے انڈین حکومت کوکرنسی نوٹوں کی فراہمی کے لیے بھی ایڈوانس رقم اداکی تاہم چمڑی جائے دمڑی نہ جائے کے اصول پرکاربند انڈین حکومت نے پاکستان کواس کے مالی اثاثے دیناتو درکنارایڈوانس وصولی کے باوجودکرنسی تک چھاپ کرنہیں دی۔ پاکستان نے اپنی کرنسی وضع کرنے کے بعدپاکستان میں زیرگردش بھارتی کرنسی جمع کرکے بھارت کے مرکزی بینک کوارسال کردی لیکن اس بھارتی کرنسی کے عوض زرکی ادائیگی بھی تاحال نہیں کی گئی اس معاملے میں معاشی ماہرین کاکہنا ہے کہ پاکستان اپنے واجبات کے حصول کے لیے عالمی عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے کاحق محفوظ رکھتاہے تاہم یہ فیصلہ سیاسی قیادت کوکرنا ہوگا جس کے لیے جرات کی ضرورت ہے۔