ملک میں سکرپٹ کا شور اور حکومت بے بس ہے ،بلاول بھٹو زر داری

ہفتہ 18 اکتوبر 2014 23:37

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔18اکتوبر۔2014ء) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زر داری نے کہا ہے کہ ملک میں سکرپٹ کا شور اور حکومت بے بس ہے  کٹھ پتلی وزیر اعظم تک سکرپٹ ختم نہیں ہوگا  وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ بھی آمریت کی پیداوار ہیں  ایک طرف ووٹ کی طاقت سے آنے والے اور دوسری طرف امپائر کی انگلی پر ناچنے والے ہیں  پی پی کے پاس امپائر کی انگلی پر ناچنے والے لوگ نہیں  آمریت  جہالت  انتہا پسندی  غربت کے خلاف جہاد کیلئے تیار ہیں  ہماری ڈکشنر ی میں ڈرنے کا لفظ موجود نہیں ہے شہادت ہماری منزل ہے  پاکستان میں جتنی تباہی پھیلے گی دشمن اور آمریت کے چاہنے والوں اور انتہاء پسندوں کو اتنا ہی فائدہ ہو گا کراچی کستان کا واحد بڑا شہر ہے، اس کیلئے ایمرجنسی پیکیج دیا جائے جنوبی پنجاب دہشتگردوں کی پناہ گاہ بن چکا ہے وزیر اعظم صاحب جنوبی پنجاب کے حقوق دو ورنہ حقو ق چھین لیں گے  ہم شدت پسندی پر یقین نہیں رکھتے ملک کو بھٹو ازم کے ذریعے مسائل سے نکالیں گے شیر کے شکار کیلئے کھلاڑی کی نہیں شکاری کی ضرورت ہوگی  جب میں کشمیر کی بات کرتا ہوں تو مودی سرکار مجھ پر سوال اٹھاتی ہے کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل ہونا چاہئے۔

(جاری ہے)

ہفتہ کو جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زر داری نے کہاکہ جلسے میں آنے والوں کو سلام پیش کرتا ہوں قائد اعظم کے مزار کے سامنے کھڑا ہوں قائد اعظم نے پاکستان کاتحفہ دیا زندگی نے وقت نہیں دیا اور وہ جمہوریت کا تحفہ نہ دے سکے لیکن ذو الفقار علی بھٹو میدان میں آئے 73کا دستور دیکر خواب پورا کر کے دکھایا بھٹو کو شہید کیاگیا تو اس کی بیٹی نے پرچم تھاما اور جان دیکر ملک کو جمہوریت دی ہم سب ایک منزل کے مسافر ہیں قائد اعظم  قائد عوام اور شہید بی بی نے عوام کے حق کیلئے آواز اٹھائی عوام کی طاقت عوام ہی ہیں انہوں نے کہاکہ پاکستان میں ہمیشہ دو قوتیں رہی ہیں ایک بھٹوازم اور دوسری آمریت کے پجاریوں کی قوت ہے جسے میں سٹیٹس کو کا نام دیا ہے مشرف کے چاہنے والوں کا نام دیا ہے اسلام دین ہے مساوات ہماری معیشت ہے جمہوریت ہماری سیاست ہے شہادت ہماری منزل ہے انہوں نے کہاکہ 18اکتوبر 2007ء کے دن آمریت کے مارے لوگوں کو بی بی کی شکل میں کرن نظر آئی پاکستان کی پہچان بی بی تھی بی بی کے ملک سے جمہوریت چھین لی گئی تھی پھر دنیا نے دیکھا 30لاکھ سے زائد لوگ ان کیلئے نکلے تاریخ نے دیکھا بلاول بھٹو نے کہاکہ 18اکتوبر2007 وہ دن تھاجب آمریت کے روں کوامید کی روشنی نظر آئی،مشرف کی پیداوارنے پہلے سے کہاتھاجلسہ 12 بجے ختم ہوجائے گا، آمریت کے درندوں نے جمہوریت کے چاہنے والوں کوخون میں سرخ کردیا۔

انہوں نے کہاکہ کراچی کی سڑکوں پر پی پی کے جیالوں کا خون پانی کی طرح بہایا گیا اس موقع پر انہوں نے نعرہ لگایا کہ آج بھی ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے ۔بلاول بھٹو زر داری نے کہاکہ سوال یہ ہے کہ دہشتگردی کے حملے ہم پر کیوں ہوتے ہیں ہمیں کیوں مارا جاتا ہے کوڑے ہمارے لئے کیوں ہیں منتخب وزیر اعظم کو پھانسی دے دی جاتی ہے تختہ دار صرف ہمارے لئے کیوں ہیں کبھی مسلم امہ کی پہلی خاتون وزیر اعظم کو سرعام شہید کر دیا جاتا ہے حملے صرف ہمارے لئے کیوں ہیں وہ سمجھتے ہیں پھانسیوں اور حملوں سے ڈرالیں گے مگر جان لو بھٹو کبھی ڈرتا نہیں ہماری ڈکشنر ی میں ڈرنے کا لفظ موجود نہیں ہے ہمارے پاس شہید ناصر بلوچ اور ادریس طوطی جیسے جیالے ہیں ضیاء دور میں پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا تو بھٹو کا نعرہ لگایا اور شہید ہوگئے 2007میں جیالوں نے اپنی جانیں دیکر بی بی کو اکیلا نہیں چھوڑا اور کہا کہ اب راج کرے گی بے نظیر ۔

بلاول بھٹو زر داری نے کہاکہ 2001میں گور نر سلمان کی تاثیر کی صورت میں آواز اٹھی اس کی سزا انہیں ملی شہباز بھٹی کو سزا ملی اور یہ لوگ بندوق کے زور پر نظریہ مسلط کر نے والوں کے راستے میں دیوار تھے ہم مذہب کی بنیاد پر سیاست نہیں کرتے پاکستان کی بات کر تے ہیں انہوں نے کہاکہ اگر پی پی نہیں ہوگی تو روشنیوں کے قافلے گھر کا راستہ بھول جائینگے انہوں نے کہاکہ ایک طرف بھٹو ازم ہے اور دوسری طرف آمریت کے پجاری ہیں ایک طرف ووٹ کی طاقت ہے اور دوسری طرف امپائر کی انگلی پر ناچنے والے ہیں بی بی نے قربانی دی اور زر داری کے وژن نے بھٹو کا نظام دیکر پاکستان دے دیا ہے ہم نے شہادتیں حاصل کیں 1973کا آئین بھٹو نے دیا آج جمہوریت ہے مولانا مودی تک سب نے دستور کو تسلیم کیا بھٹو کے دشمن بھی آج آئین کو مانتے ہیں ضیاء کا بیٹا بھی بھٹو کے دستور کے تحت حلف اٹھاتا ہے اس لئے ہم کہتے ہیں جمہوریت بہترین انتقام ہے آصف علی زر داری اور بیٹے نے چھ سالہ جمہوریت کو بچایا ہے آج سکرپٹ کا شور مچا ہوا ہے حکومت بے بس ہے ملک خانہ جنگی کی طرف جارہا ہے بلاول بھٹو زر داری نے کہاکہ صلی اسکرپٹ کل بھی وہی تھا اور آج بھی وہی ہے، جس طرح بھٹو صاحب نے کہا تھا مجھے معلوم ہے کہ میرے عوام اور میرے خلاف سازشوں کی کیا کھچڑی پک رہی ہے، یہ سکرپٹ اس وقت لکھا گیا تھا، یہ سکرپٹ کل بھی وہی تھی اور آج بھی وہی ہے، یہ آمریت کے پجاری بی این اے اتحاد کی صورت میں قائد عوام کے سامنے آتے ہیں اور کبھی 5 جولائی 1977 کو ہم پر مسلط کئے جاتے ہیں، کبھی 4 اپریل 1979ء کو شہید ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیتے ہیں، کبھی یہ آئی جے آئی کے روپ میں سامنے آتے ہیں اور کبھی فاروق لغاری جیسے سیاسی غدار بن جاتے ہیں، کبھی مشرف جیسے قومی غدار کی شکل میں نازل ہوتے ہیں، کبھی 18 اکتوبر 2007ء کی امید کی کرن کو خون کی ہولی میں رنگتے ہیں، مشرف اور سیاہ لابی مل کر ہماری بی بی کو ہم سے چھین لیتے ہیں اور بی بی کو شہید کر دیا جاتا ہے اور پاکستان ٹکڑوں میں بکھرنا شروع ہو جاتا ہے لیکن مرد آہن صدر زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر اور بی بی کے بیٹے نے جمہوریت بہترین انتقام ہے کا نعرہ لگا کر بکھرتے ہوئے ٹکڑے کو زنجیر سے پھر باندھ دیا۔

کبھی یہ سیاسی دجال کے روپ میں سوموٹو سے جمہوریت کو سبوتاژ کرتے ہیں، اس سکرپٹ کا مقصد یہ تھا کہ نواز شریف کو جعلی سپر مینڈیٹ دیا جائے اور پتلی خان کو اپوزیشن لیڈر بنایا جائے، کوئی بہانا بنا کر بھٹو کا نظام توڑ کر ہمیشہ کیلئے جمہوریت کو پٹری سے اتار دیا جائے، مگر شہید کے جیالوں نے ایسا نہیں ہونے دیا، آپ نے دہشت گردی، سیاسی دجال اور دھاندلی کے باوجود اپنا اپوزیشن لیڈر بنایا، یہ سکرپٹ اس وقت تک ختم نہیں ہو گا جب تک کوئی کٹھ پتلی وزیراعظم نہ بن جائے تاکہ نظام درہم برہم ہو جائے اور پھر پاکستان میں سول وار شروع ہو جائے۔

اس سکرپٹ میں ملکی و غیر ملکی طاقتیں شامل ہیں وہ پاکستان کو بھی عراق اور سیریا کی طرح بنانا چاہتے ہیں تاکہ یہاں بھی دنیا بھر کے دہشت گرد اپنے خودکش بمبار تیار کر سکیں ۔ پاکستان میں جتنی تباہی پھیلے گی دشمن اور آمریت کے چاہنے والوں اور انتہاء پسندوں کو اتنا ہی فائدہ ہو گا۔ اسکرپٹ کا مقصد نواز شریف کو جعلی مینڈیٹ دیا جانا تھا، کٹھ پتلی وزیر اعظم تک اسکرپٹ ختم نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہاکہ آج اگر اس ملک کو سول وار سے بچانا ہے تو اس کا حل صرف اور صرف بھٹوازم ہی ہے۔ کیوں تقسیم کرتے ہو میرے ملک کے لوگوں کو؟ کیوں اکٹھے نہیں رہنے دیتے؟ پاکستان کے دشمنو تم ناکام ہو گے، یہ ملک بھٹو کے دیوانوں کا ہے، اور اس ملک میں صرف بھٹو کا نظام چلے گا۔ بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعظم کو تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کو کس نے اجازت دی کہ ساری توانائی دھرنے ختم کرنے پر لگا دیں، پیپلز پارتی نے بھی کوئٹہ میں انتہا پسندی کے خلاف ہزارہ برادری کا دھرنا دیکھاوزیراعظم صاحب! میں آپ کو بھی یاددلانا چاہتا ہوں آپ اس ملک کے وزیراعظم ہیں، آپ میرے وزیراعظم بھی ہیں، آپ کو کس نے اجازت دی کہ پوری وفاقی حکومت کے تمام تر وسائل ایک دھرنا ختم کرنے میں لگا دیں، کیا بھول گئے تھے کہ آپ پر 20 کروڑ عوام کی ذمہ داری بھی ہے؟ پیپلز پارٹی نے بھی کٹھ پتلیوں کے دھرنے دیکھے مگر اپنی ذمہ داریوں کو نہیں بھولے، ہم نے تو کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کا دھرنا بھی دیکھا، یہ انتہاء پسندی کے خلاف دھرنا تھا، پاکستان کی تاریخ میں اگر کوئی اصلی دھرنا تھا تو وہ میرے ہزارہ بھائیوں کا دھرنا تھا، ہمارے اس وقت کے وزیراعظم خود ان کے پاس گئے تھے اور ہم نے اخلاقی طور پر اپنی ہی حکومت کو ختم بھی کیا لیکن وزیراعلیٰ پنجاب نے کیا کیا؟ 14 معصوم لوگوں کو قتل اور 90 سے زیادہ لوگوں کو زخمی کر دیا، اور پھر ایف آئی آر بھی انہیں کے خلاف درج کروا دی۔

ایک طرف ہم پاکستان پیپلز پارٹی والے ہیں جو مرہم رکھنے کیلئے اپنی حکومت بھی ختم کر لیتے ہیں اور دوسری طرف وزیراعلیٰ پنجاب ہیں جو ضیاء کی پیداوار ہیں، آپ جو ظلم کا کوئی احتساب نہیں کرتے، مارتے بھی ہو اور رونے بھی نہیں دیتے، تمہارا شہر، تم ہی مدعی اور تم ہی منصف۔بلاول بھٹو زر داری نے کہاکہ وزیر خارجہ اور کٹھ پتلیو! آپ سب اس قوم کے قصوروار ہیں، یہ صرف آپ دونوں کی وجہ سے ہے کہ چین کے صدر نے پاکستان کا دورہ منسوخ کر کے بھارت جانے کافیصلہ کیا، آج ہم اپنی خارجہ پایسی میں ناکام ہو رہے ہیں، امریکی صدر اوباما نے ہندوستان کے مودی کے ساتھ ڈنر کیا اور آرٹیکل بھی لکھا اور دوسری طرف ہمارا شیر بھی وہاں گیا تھا وہ شیر جو بھیگی بلی بن کر واپس آ گیا۔

انہوں نے کہاکہ ذوالفقار علی بھٹو نے چین کو پاکستان کا گہرا دوست بنایا، امریکہ اور چین کی دوستی کروائی، پوری مسلم امہ کو اکٹھا کیا، ہمیں آج بھی بھٹوازم سے سبق سیکھنا ہو گا اور دنیا میں اپنا امیج بہتر کرنا ہو گا، آپس کے اختلافات چھوڑ کر پاکستان کو مسلم امہ کا لیڈر بنانا ہو گا۔ میرے جیالو ، آج لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ ایک طرف تو پنجاب ہے جہاں کتنی ڈویلپمنٹ کی جا رہی ہے اور دوسری طرف دیگر صوبے ہیں جہاں ترقی نام کی کوئی چیز نہیں، لوگ سندھ کی بات کرنے سے پہلے بھول جاتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور کے علاوہ 68 سال کی تاریخ میں سندھ کو تباہی کے سوا کچھ نہیں دیا گیا، لوگ بھول جاتے ہیں کہ پنجاب کو تو انگریز نے پاکستان بننے سے پہلے دنیا کا سب سے بڑا کینال نیٹ ورک بنا کر دیا، پنجاب میں تو قیام پاکستان سے پہلے خوشحالی تھی اور اس کے اوپر پورے پاکستان کا سرمایہ لگا دیا گیا۔

انہوں نے کہاکہ میں پوچھتا ہوں کہ پنجاب کے دیہات کو کیا ملا، کچھ کہنے سے پہلے ذرا آ کر سندھ کو دیکھو تو سہی، تب پتہ چلے گا کہ بھٹو کے نظام نے پاکستان کیلئے کیا کیا، ہم نے غریبوں کیلئے بینظیر بستی بنائی، بھٹو شہید یوتھ ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت لاکھوں نوجوانوں کو ہنر سکھایا، نئے تعلیمی ادارے بنائے، سندھ کی بیٹیوں کیلئے سکالر شپ پروگرام بنایا جس کے تحت 4 لاکھ بچیوں کو سکالر شپ دے رہے ہیں، عوام بازی گر سکیم کو گڈگورننس نہیں مانتے، گڈ گورننس صرف عوام کی خدمت کرنے سے آتی ہے۔

آج سندھ میں گندم کی امدادی قیمت پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے، اس سے پہلے پاکستان میں چینی اور گندم کا بحران تھا لیکن پاکستان پیپلزپارٹی کے پچھلے دور کی وجہ سے پاکستان آج چینی اور گندم ایکسپورٹ کر رہا ہے، ہم نے دکھاوا نہیں کیا۔بلاول بھٹو نے کہا کہ ایک عام بس کو میٹرو بنا کر عوام کو بے وقوف بنایا گیا، کل آپ ایک عام بس کو جہاز کا نام دے کر قوم کو بے وقوف بنائیں گے، پھر جہاز کو آپ راکٹ کا نام دے کر ہمیں مارس بھیجنے کا ڈھونگ رچائیں گے، جتنا پیسہ انڈیا نے مارس پر راکٹ بھیجنے پر ضائع کیا اس سے تین گنا زیادہ پیسے سے اس بس کا ڈھونگ رچایا۔

دوسری جانب ہم ہیں جو خدمت کرتے ہیں، ہم نے غریبوں کیلئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام بنایا، وسیلہ حق کے ذریعے کاروبار دیا، وسیلہ روزگار کے ذریعے باعزت روزگار دیا، ہم نے بینظیر ایمپلائیز پروگرام کے ذریعے ریاستی اداروں میں مزدوروں کو مالک بنایا، وہ چیختے تھے کہ ہم ایک مزدور کو مالک کیسے بنا سکتے ہیں، ایک مزدور آدمی کو اس کی زندگی بھر کی محنت پر 80 لاکھ روپے کے شیئرز کیسے بیچ سکتے ہیں لیکن بھٹوازم نے یہ کر دکھایا، بھٹوازم کا فلسفہ سمجھ لو، بھٹوازم غربت اور افلاس کے خلاف جہاد کا نام ہے، اس لئے ہمارے کسان، بیروزگار، مزدور، ہاری، خواتین، غرباء غرض پورا پاکستان بھٹوازم سے امید لگا کر بیٹھا ہے کیونکہ عوام کو پتہ ہے کہ بھٹو کا نظام ہی ان کے دن بدلے گا اور اس لئے وہ ہمارے ساتھ ہیں، اور یاد رکھیں پورے پاکستان میں سب سے زیادہ روزگار پاکستان پیپلز پارٹی نے ہی دیا ہے۔

اس لئے تو آج بھی صدا آتی ہے،” بینظیر آئے گی، روزگار لائے گی۔انہوں نے کہاکہ کراچی وفاق کی زنجیر ہے، پاکستان کے دل کی دھڑکن ہے، یہ کراچی قائداعظم کا دارالحکومت تھا، یہ سندھ کے تاج میں کوہ نور ہے، یہ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے، یہ کراچی منی پاکستان ہے، یہاں پرانا سنی بھی ہے، یہاں نیا سنی بھی ہے، اردو بولنے والے ہیں، پشتو بولنے والے ہیں، پنجابی بولنے والے ہیں، بلوچی، کشمیر، سرائیکی، بنگالی بولنے والے ہیں۔

یہاں پورے پاکستان کی نمائندگی ہے، یہ کراچی جہاں بی بی شہید پیدا ہوئی، جہاں میں پیدا ہوا، یہ کراچی میرا ہے، ہم سب کا شہر ہے، میں آج کراچی کو دیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے جیسے سب ایک دوسرے کے ظلم کا شکوہ کر رہے ہیں، پرانا سندھی کہتا ہے کہ میں کراچی میں اقلیت بن کر رہ گیا ہوں، نیا سندھی غمزدہ ہے اور کہتا ہے کہ میں ظلم کا شکار ہوں، ارے بس بھی کر دو، جانے بھی دو، کراچی سب کا ہے، ہم سب مل کر اس شہر کو دنیا کا عظیم ترین شہر بنائیں گے، ہم کراچی میں امن و امان بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کراچی آپریشن جاری ہے، کراچی میں لاہور سے دو گنا زیادہ آبادی ہے مگر پولیس لاہور سے آدھی ہے، یاد رکھیں! کراچی دنیا کا ساتواں بڑا شہر ہے، قانون کے مسائل دنیا کے کس بڑے شہر میں نہیں ہوتے؟ پی پی پی کی حکومت کی وجہ سے کراچی کے سیریس کرائم ریٹس آج بھی دنیا کے کئی بڑے شہروں سے کہیں کم ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی آج تک یہ جنگ اکیلی لڑ رہی ہے، ہم کراچی کو امن کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں، وزیراعظم صاحب! ہمیں ہمارا حق دو، کراچی ایک سپیشل کیس ہے، پاکستان کا واحد بڑا شہر ہے، اس کیلئے ایمرجنسی پیکیج دیا جائے، یہ صرف سندھ کا نہیں پورے پاکستان کا ہے، سندھ کب تک اکیلا لڑتا رہے گا، کراچی میں انتہاء پسندی کا مافیا ہے، گینگ وار کا مافیا ہے، لینڈ مافیا ہے، پاکستان کے دشمنوں کا مافیا ہے، آمریت کے پجاریوں کا مافیا ہے، سیاسی مافیا ہے، عدالتی مافیا بھی ہے۔

شکایت تو مجھے عدالت سے بھی ہے کہ چوہدری اسلم شہید اور ان جیسے پولیس افسران کی ترقی ختم کر دی جاتی ہے اور ہمارے وہ سب افسر ہٹا دیئے جاتے ہیں جو دہشت گردوں کیلئے خوف کی علامت ہوتے ہیں اور پھر انہیں افسران کو ان سڑکوں پر شہید کر دیا جاتا ہے، میں کہتا ہوں کہ سندھ حکومت کو سبوتاڑ کرنا بند کر دو، اگر آپ دہشت گردوں سے اتنا ہی ڈرتے ہو تو استعفیٰ دے کر گھر بیٹھ جاؤ کیونکہ ہمارے درمیان بزدلوں کی کوئی جگہ نہیں، ہم دہشت گردوں کے خلاف جہاد کرنے کیلئے تیار ہیں، آمریت کے خلاف انتہاء پسندی کے خلاف، غربت کے خلاف جہالت کے خلاف جہاد کرنے کیلئے تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم 20 سال سے کراچی پر حکمرانی کر رہی ہے، ان بیس سالوں میں کراچی میں جو ہوہم سب جانتے ہیں مگر اب پی ٹی آئی لاہور کی ایم کیو ایم بننا چاہتی ہے، لیکن ہم ڈرنے والے نہیں ہیں، کراچی کو بھٹو کا نظام ہی بدلے گا، آج ملک میں دھاندلی کا بہت شور ہے، پی پی کے خلاف ہمیشہ ہی دھاندلی ہوئی، ہر صوبے میں ہمارے خلاف دھاندلی ہوئی مگر نہ تو ہم کسی ایمپائر کی انگلی پر ناچتے ہیں اور نہ کوئی تحریک چلاتے ہیں، 2018 میں کراچی میں شفاف انتخاب ہوں گے اور کراچی کو آزادی ملے گی، اس دن بسنت کا ماحول ہو گا اور ہر شخص کہے گا ’بو کاٹا ‘۔

ان کا کہنا تھا کہ آج بجلی قیمت آسمان تک پہنچ گئی ہے، اگر وزیر اعظم صاحب آصف زرداری کے پاک ایران گیس منصوبے پر عمل کرتے تو بجلی کی قلت نہ ہوتی، اللہ نے سندھ کو وسائل دئے ہیں ، ہمارے پاس اتنا کوئلہ ہے کہ ہم بجلی بنا سکتے ہیں ، میں وزیر اعظم کو دعوت دیتا ہوں کہ آئیں مل کر کام کرتے ہیں ،میں ایم کیو ایم کو بھی دعوت دیتا ہوں کہ آئیں مل کر کام کرتے ہیں، صحت کی وزارت ان کے پاس ہے مگر اس محکمے میں کوئی کام نہیں ہو رہا، اگر یہاں ایبولا وائرس آ گیا تو کون ہمارے بچوں کو بچائے گا؟انہوں نے کہا کہ کا نعرہ تو ایک بہانہ ہے تا کہ ہمیں عوام کی خدمت سے روکاجا سکے کیونکہ وہ ہمارے دشمن ہیں، ہمیں اب مل کر کام کرنا ہو گا، اب وقت آ گیا ہے، اب سب کام کرنا ہو گا، اب ہر چیز کو شفاف بنانا ہو گا، ہر نوکری پر تعیناتی شفاف کرنا ہو گی، اب جیالے سے لے کر وزیر اعلی اور وزیر اعظم سب کو کام کرنا ہو گا۔

اب سب کو حساب دینا ہو گا، حکومت بھی سرکولر ڈیٹ کا حساب دے۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ پاکستان میں احساس محرومی کیوں ہے؟ ایک طرف وہ ہیں جو لاپتہ افراد کے لئے بلوچستان سے اسلام آباد اپنے رشتہ داروں کی خاطر آئے مگر کسی نے ان کی بات نہیں سنی، انہوں نے تو کسی کے استعفے کا مطالبہ نہیں کیا، مگر دوسری طرف کٹھ پتلیوں نے دھرنا دیا تو سارا میڈیا ان کی طرف توجہ دے رہا ہے۔

پیپلز پارٹ کی سابقہ حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب ہماری حکومت آئی تھی تو ہم نے بلوچستان سے معافی مانگی تھی، ہم نے ہی آغاز حقوق بلوچستان کا پروگرام دیا تھا، ہم نے صوبائی خود مختاری دی تھی یہ بھٹوازم کا درس تھا۔ بلوچستان میں ہمارے جلائے ہوئے دیے سے تبدیلی آ رہی ہے، ہماری حکومت نے ہی سوئی کے علاقے میں سوئی گیس فراہم کی تھی، اب وزیر اعلی ڈاکٹر مالک پہلے بلوچ وزیر اعلی ہیں انہوں نے اگر بلوچستان کی خدمت کر دی تو سب منصوبے ناکام ہو جائیں گے۔

آج اگر جس کا جو دل میں آتا وہ بات کر رہا ہے تو یہ صرف بھٹو ازم کی وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے۔انہوں نے کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگاتے ہوئے کہا کہ جب میں کشمیر کی بات کرتا ہوں تو مودی سرکار مجھ پر سوال اٹھاتی ہے، میں نے کشمیر کی بات کی تو پورا ہندوستان غصے میں آ گیا، ہماری تصویریں جلائی گئیں اور ہماری ویب سائیٹ ہیک کر لی گئی، پوری دنیا اس بھٹو ازم سے ڈرتی ہے، جب میں کشمیر کی بات کرتا ہوں تو مجھے غلط نہ سمجھا جائے،یہ میری ماں کا وعدہ تھا کہ کشمیر بنے گا پاکستان۔

انہوں نے کہا کہ آج ہماری پاک فوج کے جوان وزیرستان میں ہماری جنگ لڑ رہے ہیں مگر ہر مسئلے کا حل طاقت کے استعمال میں نہیں ہے، آپریشن تو مشرف نے بھی کئے تھے مگر ناکام ہوا کیونکہ عوام اس کے ساتھ نہیں تھے مگر ہم نے آپریشن کئے تو کامیاب رہے کیونکہ اس کے پیچھے عوام تھے اور بھٹو ازم تھا۔ جب ہمارے جوان لڑ رہے تھے تو ہماری قیادت ان کے شانہ بشانہ تھی مگر آج صورتحال مختلف ہے پیپلز پارٹی اور چند جماعتوں کے سوا کوئی ضرب عضب کی حمایت نہیں کر رہا مگر یہ آپریشن کامیاب ہو گا ، میں جوانوں کو سلام پیش کرتا ہوں کیونکہ آج تو ہمارے جونواں کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ میں کہتا ہوں کہ کٹھ پتلیاں دھرنوں سے اٹھیں اور خیبر پختونخواہ میں جا رکر کام کریں، اگر طالبان سے ڈر لگتا ہے تو بنوں میں آئی ڈی پیز کی ہی خدمت کر دو، آپ تو تین ماہ میں کرپشن اور دہشت گردی ختم کرنے جا رہے تھے مگر سب ویسا ہی ہے، آپ نیا پاکستان کیا بنائیں گے آپ تو نیا خیبر پختونخواہ نہیں بنا سکے، تحریک انصاف میں انصاف صرف امپائر کے لئے ہے، یہ کیسی سیاست ہے؟ اگر سیاست سیکھنا چاہتے ہو تو ہم سے سیکھو کہ سیلاب میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو کیسے بچانا ہے، کراچی میں دہشت گردی کا مقابلہ آج بھی کر رہے ہیں۔

انہوں نے اپنے حالیہ دورہ پنجاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت دہشت گردوں کے خلاف ہمارا ساتھ نہیں دے رہا اگر ایسا ہی رہا تو امن کا خواب خواب ہی رہے گا، جنوبی پنجاب کو دہشت گردی کی آماجگاہ بنا دیا گیا تھاکیونکہ ان کے وسائل پر قبضہ کر لیا گیا ہے، میں کہتا ہوں کہ ان کا الگ صوبہ قائم کیا جائے اور وزیر اعظم اس بات پر عمل کریں ورنہ ہم یہ صوبہ بنوائیں گے، باقی پنجاب میں بھی عوام کی بری حالت ہے اور ہر جگہ پولیس گلو بٹ بنی ہوئی ہے، ہم جانتے ہیں اس کی وجہ آپ کی آمریت ہے۔

بلاول بھٹو زر داری نے کہاکہ پی ٹی آئی جہاز والے کا پہلے احتساب کرے بھٹو ازم سے سبق سیکھیں پنجاب ہمارے ساتھ کھڑا ہو ہمارے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے پنجاب میں زندگی اندھیروں میں ڈوب چکی ہے جنوبی پنجاب دہشتگردوں کی پناہ گاہ بن چکا ہے اس موقع پر انہوں نے کہاکہ دہشتگردوں کا جو یار ہے غدار ہے انہوں نے وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ جنوبی پنجاب کے حقوق دو ورنہ حقو ق چھین لیں گے آپ کے پاس اکثریت ہے آپ ہر الیکشن میں دھاندلی کے ذریعے آتے ہیں پنجاب میں انڈسٹری کو گیس نہیں مل رہی ہے عورتیں کی عزتیں محفوظ نہیں ڈاکٹر رو رہے ہیں لیڈی ہیلتھ ورکرز کو گھسیٹا جارہا ہے لاہور نہیں چلایا جاتا پورا پنجاب کیسے چائیں گے آپ میں ضیاء کی روح گھس گئی ہے بھٹو ازم کو اپنا لو جب ہم عوام کے سمندر کے ساتھ آئیں گے تو بھٹو کے نعرے لگیں گے ہر طرف لوگ ہیں انہوں نے گلگت کے حوالے سے کہاکہ ہم نے گلگت بلتستان کو حقوق دیئے ان کی شناخت دی دوسری طرف شریفوں کی حکومت ہے گندم پر سبسڈی واپس لے لی پی آئی اے کی فلائٹ کینسل کر دی ہر طرف تاریخی ہے انہوں نے کہاکہ یوم تاسیس کے موقع پر لاہور میں پارٹی کنونشن ہوگا پارٹی ممبران بلاول ہاؤس آئیں ہمیں بتائیں پارٹی کیسی چلانی ہے آپ بتائیں گے ہم صرف سنیں گے انہوں نے کہاکہ بی بی نے ہمیں مفاہمت کی سیاست کا سبق سکھایا بھٹو شہید کا عدالتی قتل کیا گیا  پھر بھی ہم نے قانون کا راستہ اختیار کیا آج بلاول کو انصاف نہیں مل رہا ہے تو عام آدمی کو کیسے انصاف ملے گا ہم نے اداروں پر حملہ نہیں کیا ہم اداروں کا احترام کرتے ہیں اور کرینگے موجودہ وزیر اعظم کے دور میں بے نظیر جیل میں رہی کیا میں کہوں آپ وزیر اعظم ہاؤس نہیں جائیں گے مگر ہم بی بی کی روح کو شرمندہ نہیں کرینگے راولپنڈی میں بی بی کو سکیورٹی نہیں دی گئی بلاول ہاؤس غریبوں کا گھر ہے ایک آواز دونگا تو کہیں پناہ نہیں ملے گی تاہم ہم شدت پسندی پر یقین نہیں رکھتے حالات جو بھی ہوں ہم پاکستان کے ساتھ محبت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے کٹھ پتلی مسئلہ حل کر ناہی نہیں چاہتے ہیں گھر جلانا چاہتے ہیں شیر کے شکار کیلئے شکاری کی ضرورت نہیں کھلاڑی کی نہیں شیر تیر سے شکار ہوگا بلے نہیں ضیاء کی آمریت کی پیدواروں کو پتہ چل گیا ہے کہ تیر کمان سے نکل گیا ہے بھٹو میدان میں آگیا ہے انہوں نے کہاکہ بی بی نے آخری الفاظ کہے تھے کہ دنیا والے کہتے ہیں آپ ملک سنبھال نہیں سکیں گے یہ میرا ملک ہے یہ آپ کا ملک ہے میں سنبھالوں گا آپ سنبھالیں گے یہ ملک عوام کی طاقت سے بچ سکتا ہے کہا گیا کہ بی بی شہید اور نواز شریف نہیں آئے گے بی بی بھی پاکستان آئے گی اور نواز شریف بھی پاکستان آئے اور ان کا جھوٹ پکڑا گیا

متعلقہ عنوان :