نیا ڈی جی آئی ایس آئی کون ہوگا؟ فیصلہ چند روز میں متوقع،

ابھی تک فوج اور سول حکومت کے درمیان رسمی تبادلہ خیال نہیں ہوا ، حکومتی ذرائع،آرمی چیف میجر جنرلز کو ترقی دے کریہ عہدہ دینا چاہتے ہیں، میڈیا رپورٹ

بدھ 17 ستمبر 2014 21:11

نیا ڈی جی آئی ایس آئی کون ہوگا؟ فیصلہ چند روز میں متوقع،

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔17ستمبر 2014ء ) ملک کے سب سے بڑے سراغ رساں ادارہ انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے نئے سربراہ کے نام کا اعلان آئندہ ہفتے متوقع ہے جبکہ اس سے قبل بّری فوج میں پانچ نئے لیفٹیننٹ جنرلز کی تعیناتی کا اعلان کیا جائے گا۔غیرملکی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق جی ایچ کیو راولپنڈی میں اس بارے میں ہونے والے صلاح و مشورہ سے واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی کے نئے سربراہ کی تعیناتی سے قبل بّری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف بعض میجر جنرلز کو ترقی دے کر لیفٹیننٹ جنرلز بنانا چاہتے ہیں تاکہ پاکستانی فوج میں دوسرے اہم ترین سمجھے جانے والے عہدے کے لیے ان کے نام پر بھی غور کیا جا سکے۔

آئی ایس آئی کے سربراہ سمیت پاکستانی فوج کے پانچ لیفٹیننٹ جنرلز اکتوبر کے پہلے ہفتے میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔

(جاری ہے)

ملک میں جاری سیاسی بحران کو پیدا کرنے میں ان میں سے بعض فوجی افسران پرالزام لگتا رہا ہے اس لیے اس موقع پر پاکستانی فوج میں ان کلیدی تبدیلیوں کو غیر معمولی اہمیت دی جا رہی ہے۔جن دو افسروں کا نام گردش کر رہا ہے ان میں لاہور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نوید زمان اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے شامل ہیں۔

اس کے مقابلے میں فوجی حلقوں میں جو دو نام آئی ایس آئی کی سربراہی کے لیے زیر بحث ہیں یہ دونوں جونیئر افسران ہیں اور دفاعی تجزیہ کاروں کے لیے یہ نام اس اہم عہدے کے لیے حیرت کا باعث ہیں۔اکتوبر کے پہلے ہفتے میں بّری فوج کے جو افسر ریٹائر ہونے والے ہیں ان میں آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام عباسی، منگلا کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل طارق خان، گوجرانوالہ کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل سلیم نواز، پشاور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل خالد ربانی اور کراچی کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل سجاد غنی شامل ہیں۔

یہ پانچوں عہدے پاکستانی فوج میں خاصے اہم ہیں لیکن آئی ایس آئی کے سربراہ کو بری فوج کے بعد فوج کا اہم ترین عہدیدار سمجھا جاتا ہے۔آئی ایس آئی کے سربراہ کی تعیناتی اصولی طور پر وزیراعظم کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے تاہم اس اہم ترین عہدے پر تعیناتی میں بّری فوج کے سربراہ کی رائے بھی بہت اہم سمجھی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جی ایچ کیو اور ایوان وزیراعظم میں آج کل اس کلیدی عہدے پر تعیناتی کے لیے صلاح و مشورہ جاری ہے۔

وزیراعظم کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ اس موضوع پر ابھی تک فوج اور سول حکومت کے درمیان رسمی تبادلہ خیال نہیں ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ جنرل راحیل شریف فوج میں پانچ نئے لیفٹیننٹ جنرلز کی تعیناتی سے قبل وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کریں گے۔آئی ایس آئی سربراہ کے لئے جن جونیئر افسران کے نام لئے جا رہے ہیں ان میں میجر جنرل نذیر بٹ بھی شامل ہیں جو فوج کے تربیتی ادارے پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کے کمانڈنٹ ہیں۔

وہ اپنے ساتھیوں میں فوجی ڈسپلن کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ میجر جنرل نذیر بٹ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عملی طور پر بھی حصہ لے چکے ہیں اور ان کی اس کلیدی عہدے پر ممکنہ تعیناتی کے لیے انھیں باقی افسروں سے جو تجربہ ممتاز کرتا ہے وہ ان کی امریکہ میں تین برس کی تعیناتی ہے۔ جنرل بٹ واشنگٹن میں دفاعی اتاشی کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔اس دوران وہ امریکی محکمہ دفاع کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکی پالیسی کی تیاری کے دوران قریبی رابطے میں رہے ہیں۔

دوسرے جونیئر افسر میجر جنرل رضوان اختر شامل ہیں جو سندھ رینجرز کے سربراہ کے طور پر کراچی میں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف کارروائیاں کر چکے ہیں اور ان کی فوج میں شہرت ایک ایسے افسر کے طور پر ہے جو مختلف ذمہ داریاں بغیر پیچیدگیوں کے ادا کر سکتا ہے۔اس کے علاوہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا مزاج انھیں سویلین انتظامیہ، خاص طور پر قانون نافذ کرنے والے سویلین اداروں کے ساتھ کام کرنے میں بہت سہولت فراہم کرتا ہے۔

پاکستانی فوج کے ابھرتے ہوئے یہ دونوں افسران اپنے غیر سیاسی نظریات کی وجہ سے غیر جانبدار سمجھے جا رہے ہیں۔غیرملکی میڈیا ادارہ کا دعویٰ ہے کہ شاید یہی وجہ ہے کہ جنرل راحیل ان نئے افسروں میں سے کسی کو آئی ایس آئی کے سربراہ کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :