بھوآنہ میں سیلاب متاثرین کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پرمجبور، نہ کوئی کیمپ نہ امداد، لوگ بے یارو مدد گار،وزیر اعلیٰ کی آمد پر کیمپ لگائے، ہیلی کاپٹر اڑنے کے ساتھ ہی کیمپ غائب ہوگئے،بہت سے لوگ مویشیوں کے ساتھ پھنسے ہوئے ہیں، بربادی اور تباہی نے ڈیرے ڈال لئے، خادم اعلیٰ کے طوفانی دورے بھی لوگوں کو ریلیف دینے میں ناکام

جمعرات 11 ستمبر 2014 19:45

بھوآنہ (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔11ستمبر۔2014ء) سیلاب زدگان کھلے آسمان تلے نہ کوئی کیمپ نہ کوئی امداد لوگ بے یارو مدد گار وزیر اعلیٰ کی آمد کے ساتھ کیمپ لگائے جاتے اور ان ان کا ہیلی کاپٹر اڑنے کے ساتھ ہی کیمپ یوں غائب جیسے گدھے کے سر سے سینگھ،ابھی بھی لوگ سیلاب زدہ علاقوں میں اپنے مویشیوں کے ساتھ پھنسے ہوئے ہیں ،ہر جانب بربادی اور تباہی نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں خادم اعلیٰ کے طوفانی دورے بھی لوگوں کو ریلیف دینے میں ناکام۔

(جاری ہے)

تفصیلات کے مطابق حالیہ بدترین سیلاب نے تحصیل بھوآنہ کو بری طرح متاثر کیا ہے اس سیلاب نے جہاں انسانی جانوں کو نہ بخشا وہیں لوگوں کے مکانات ،مال ڈنگر بھی اس سیلاب کی نظر ہو گئے لیکن افسوس اس بات کا ہے ویر اعلیٰ ہر روز لاکھوں روپے اپنے دوروں پر خرچ کرنے میں مصروف ہیں مگر ان کے دورے صرف ”آنیاں جانیاں “ہی ہیں ان کی آمد کی اطلاع ملتے ہیں ضلعی انتظامیہ سیلاب زدگان وک چھوڑ کر ان کے دورے کے انظامات میں لگ جاتی ہے جب کہ ان کو دورہ بھی وہاں کروا یا اج تا ہے جہاں نہ تو کوئی متاثرین سیلاب ہوتا ہے نہ اس کا کوئی نقصان ہوا ہوتا ہے حد یہ ہے کہ سیلاب زدگان کے لیے لایا جا نے والا ”خوراک “کا تھیلہ بھی اصل حقداروں تک پہنتا بلکہ وہ بھی پٹواری حضرات اپنے من پسند لوگوں میں تقسیم کر دیتے ہیں وزیر اعلیٰ کی آمد اور ان کی روانگی تک ہی کیمپ موجود ہوتے ہیں اس کے بعد نہ صحت نہ کوئی ریلیف ہاں علاقہ بھر کے مخیر حضرات سیلاب زدگان کے لیے اپنی سی کوششوں میں لگے ہو ئے ہیں اور ان کو ادویات اور کھانا وغیرہ پہنچا رہے ہیں اگر حکومتی امداد کی ابت کی جائے تو وہ امداد صرف وزیر اعلیٰ کی آمد اور روانگی تک ہی محدود ہے جیسے وہ گئے ویسے ہی یہ جھوٹے کیمپ بھی گئے اضرا ماحول سوگوارلوگ اور ابھی تک سیکڑوں کی تعاد میں لوگ یہاں بے یارو مدد گار پڑے ہیں اگر سیلاب کی تباہی کا احوال بیان کیا جائے تو ٹھٹھہ محمد شاہ ،موضع سلیمان ،مڈل وغیرہ میں آبادیاں زیادہ متاثر ہوئی ہیں مگر ان تک نہ تو کوئی حکومتی امداد پہنچی نہ ہی کوئی ریسکیو ٹیم پہنچ سکی چنیوٹ اور اس کے گرد و نواح میں ریسکیو کا کام زیادہ ہوا شائد اس لیے کہ وہ ضلعی مقام تھا مگر باقی ایریاز میں کوئی خاص کام دیکھنے میں نہیں آیا اور تو اور تحصیل انتطامیہ کی جانب سے لگا یا گیا فلڈ ریلیف کیمپ بھی اپنی بے سرو سامانی کی داستان بیان کر رہا تھا مگر وہاں کو ئی متاثرہ شخص نہیں گیا نہ تو ان کے پاس جانوروں کو کھلانے کا کوئی چارہ نہ انساونں کے لیے کوئی سہولیات ہاں محکمہ صحت کا ایک شخص اپنے ساز و سامان کے ساتھ اکثر دیکھا جاتا تھا حیوانات کو بیماریوں سے بچا نے کے لیے ویکسین بھی صرف ان لوگوں کے ڈنگروں کو لگا ئی جاتی تھی جس کا اثر و رسوخ یا تعلقات ہوں خیمہ نما بستی جس کی تعداد دس خیموں پر مشتمل تھی میں اتنی گنائش تک نہیں تھی کہ دو افراد اکٹھے بیٹھ سکیں اور متاثرین کے لیے لائی جانے والی خوراک اورا س میں شامل منرل واٹر کی بولتیں وہ لوگ لے گئے جن کی اپنی آمدنی ماشاللہ تھی کل تک سیلاب زدگان کی حالت یہ تھی کہ وہ پاگلوں کی طرح اپنی املاک اور اشیاء کو ڈھونڈتے پھر رہے تھے تین سے چار دن کے بھوکے پیاسے لوگوں تک اصل امداد پہنچی ہی نہیں ذرائع یہ بھی بتا تے ہیں کہ جب پانی مکمل طور پر پیچھے ہٹ جائے گا تو بہت سی لاشیں ملنے کا اندیشہ ہے یہ وہ لوگ ہوں گے جن کو بروقت اور بعدع میں بار بار بلانے کے باوجود ریسکیو نہیں کیا جاسکا ان میں سے اکثر کی موت بھوک اور پیاس سے ہوئی ہوگی مگر اس کا زمہ دار کون ؟ضلعی حکومت؟یا پھر خادم اعلیٰ صاحب ؟جو چند فت پانی میں کشتی چلا کر لوگوں کو تھیلے پکڑ ا کر پُھر سے اڑ جاتے ہٰں لوگ مالی امداد کے منتظر یہاں خوراک تک ان کو نہٰں ملتی اور پٹواری حضرات ”وہ شرینی “بھی اپنے لوگوں میں بانٹ کر باقی اپنے گھروں میں لے جاتے ہیں کیوں کہ ان سے زیادہ کون مستحق ہے اس خوراک کا ؟۔

متعلقہ عنوان :