پاکستانی سمجھدار ہو گئے ،اب داؤ پیج سے کام نہیں چلے گا ، قانون کی عملداری نظرآتی دیکھنا چاہتے ہیں‘ آئی پی آر،اشرفیہ کی حمایت میں سیاسی اکانومی کو وقف کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے اشرفیہ مضبوط ،دوسرے اداروں پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے ،پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جن میں جی ڈی پی کا بہت کم حصہ عوام کی فلاح و بہبود کیلئے خرچ کیا جاتا ہے ،تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز نے ”سماجی استحکام کیلئے بہتر طرز حکومت کیلئے داؤ پیج نہیں بلکہ حکمت عملی “ کے عنوان سے مفصل رپورٹ جاری کردی

جمعرات 11 ستمبر 2014 19:32

پاکستانی سمجھدار ہو گئے ،اب داؤ پیج سے کام نہیں چلے گا ، قانون کی عملداری ..

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔11ستمبر۔2014ء) تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز نے ”ملک میں سماجی استحکام کے لیے بہتر طرز حکومت کیلئے داؤ پیج نہیں بلکہ حکمت عملی “ کے عنوان سے اٹھاسی صفحات پر مشتمل ایک مفصل رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق ملک میں امن وامان کی انتہائی نازک صورتحال اور بنیادی سہولتوں کی کمی نے سماج میں ایک خسارے کی فضا اور خلا کا ماحول پید ا کر دیا ہے ۔

حکومتی اور ریاستی اداروں کی کارکردگی نہ ہونے کی وجہ سے روز مرہ زندگی میں عوام کو ان سے کوئی دلچسپی نہیں رہی ہے ۔اقتصادی ، مالی اور سیاسی طور پر زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل کرنے کیلئے اشرافیہ میں دوڑ لگی ہوئی ہے جس کے نتیجہ میں ریاست نا انصافی اور عدم مساوات کا منظر پیش کر رہی ہے جبکہ پاکستان کے استحکا م اور خوشحالی کیلئے بہترین طر ز حکومت کا ہونا ضروری ہے ۔

(جاری ہے)

آئی پی آر کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سیاسی استحکام کیلئے فیصلہ سازی اور حکومتی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے عوام کی شمولیت بہت ضروری ہے ۔اٹھاسی صفحات پر مشتمل رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستان میں ناقص طرز حکومت ہونے کے کافی شواہد موجود ہیں۔جیسا کہ ملک میں سول سروینٹس، ریاست اور افراد کے درمیان رابطے کا کام کرتے ہیں جبکہ سیاسی سرپرستی اور مداخلت کی وجہ سے یہ ادارہ کمزور ہو چکاہے لہٰذاطاقت کی یہ رسہ کشی ملک پر اثر انداز ہو رہی ہے ۔

اشرفیہ کی حمایت میں سیاسی اکانومی کو وقف کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف یہ اشرفیہ مضبوط ہوتی جا رہی ہے بلکہ دوسرے اداروں پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے ۔انتظامیہ کو مرکز سے کنٹرول کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے احتسابی نظام کمزور سے کمزو ر ہوتا جا رہا ہے سیاسی جماعتیں کمزور ہیں نیز میڈیا اور سول سوسائٹی ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ کسی طاقت کو چیک کر سکیں۔

موجودہ حالات میں پاکستان کے ریاستی ادارے اس قدر مضبوط نہیں ہیں کہ وہ ملک کے اندر بڑی تبدیلی یا گروتھ کا باعث بن سکیں۔رپورٹ کے مطابق اگر ناقص طرز حکومت کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اگرچہ سول سروینٹس ریاست کا چہرہ ہوتے ہیں لیکن ملک کے اندر خراب طرز حکومت اس قدر پھیل چکا ہے کہ اس کی ذمہ داری بھی وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے جس میں سیاسی قیادت اور معاشرے کے مختلف اجزاء شامل ہیں۔

نیز اسی طرح موجودہ دور میں حکومت میں عوام کی شرکت میں بھی کمی آئی ہے 2006میں ملک کے اندر 6628اسمبلیوں اور یونین کونسلز میں 85,000منتخب افراد تھے جب کہ موجودہ حالات میں 7مختلف باڈیز میں صرف 1207منتخب افراد ہیں۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ایسے ممالک جن میں بہترین طرز حکومت ہوتا ہے وہاں پرمضبوط ادارے ہوتے ہیں جو ایک ضابطہ اخلاق بناتے ہیں وہاں پر جب عوام حکومت میں ہوتے ہے تو ادارے مضبوط ہوتے ہیں نیز وہ ممالک جہاں پر بہترین اقتصادی پالیسیاں نافذ ہیں وہاں پر لوگوں کو بہترین طرز زندگی مہیا کرنے کیلئے جی ڈی پی کا ایک خاص حصہ خرچ کیا جاتا ہے نیز ان ممالک میں عوام کی فلاح کیلئے ترجیحات کا چناؤ کیا جاتا ہے اور وہاں پر مضبوط ادارے پروان چڑھتے ہیں۔

پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جن میں جی ڈی پی کا بہت کم حصہ عوام کی فلاح و بہبود کیلئے خرچ کیا جاتا ہے ۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ایک ہزار افراد کیلئے صرف دو سول سروینٹس ہیں جبکہ انڈیا ، امریکہ اور دیگر ممالک میں ایک ہزار افراد کیلئے دو اعشاریہ چھ(2.6)تا آٹھ اعشاریہ پانچ (8.5) سول سروینٹس ہیں۔ملک کے اندر گورننس کی انجام دہی ایک پہیلی سے کم نہیں۔

وہ لوگ جو کہ اہم عہدوں پر فائز ہیں وہ اصلاحات لا سکتے ہیں لیکن یہ اصلاحات ان کی ترجیحات اور ذاتی فائدہ کیلئے نقصان دہ ہیں اس لیے وہ ایسا نہیں کرتے ۔آئی پی آر کی رپورٹ میں گورننس کو بہتر کرنے کیلئے کچھ سفارشات بھی کی گئی ہیں جس میں فیصلہ سازی ، پروجیکٹ مینجمنٹ اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ وغیرہ شامل ہیں لیکن رپورٹ میں کہا گیا ہے یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہو گا جب لیڈر شپ حقیقی معنوں میں خود چاہے گی کہ ملک کہ اندر بہترین طرز حکومت ہو ۔

ملک کی خوشحالی کیلئے طرز حکومت میں بہتری لانا انتہائی ضروری ہے کیونکہ پاکستان خاص طور پر ان حالات کا سامنا کر رہاہے۔ اب پاکستان کے لوگ سمجھدار ہو گئے ہیں اور جانتے ہے کہ صرف داؤ پیج سے کام نہیں چلے گا بلکہ اس کیلئے بہترین حکمت عملی چاہیے تا کہ انہیں ملک میں قانون کی عملداری نظر آئے نیز ان کو بہترسہولتیں میسر ہوں۔پاکستان کے لوگ سمجھدار ہو گئے ہیں اور جانتے ہے کہ صرف داؤ پیج سے کام نہیں چلے گا بلکہ اس کیلئے بہترین حکمت عملی چاہیے تا کہ انہیں ملک میں قانون کی عملداری نظر آئے نیز ان کو بہترسہولتیں میسر ہوں۔

متعلقہ عنوان :