سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ سیکرٹریٹ کا بلوچستان کوٹہ کی بھرتیوں کے حوالے سے وزارت اطلاعات کے متعلقہ اداروں میں خالی اسامیوں کی تفصیل فراہم نہ کرنے پر شدید برہمی کا اظہار ،تمام وزارتوں میں جلد بلوچستان کوٹہ کی اسامیوں کو پر کیا جائے ،کمیٹی کی ہدایت ،وزیراعظم حقوق بلوچستان پیکیج پر عمل درآمد میں سنجیدہ ہے اور رویہ انتہائی مثبت ہے ، بیورو کریسی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں بری طرح ناکام ہے ،سینیٹر کلثوم پروین

جمعرات 11 ستمبر 2014 19:32

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔11ستمبر۔2014ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ سیکرٹریٹ نے آغاز حقوق بلوچستان کے تحت سی ڈی اے ، وزارت اطلاعات ، نیب میں خالی اسامیوں پر بلوچستان کوٹہ کی بھرتیوں کے حوالے سے وزارت اطلاعات کے متعلقہ اداروں میں خالی اسامیوں کی تفصیل فراہم نہ کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ہوئے ہدایت کی ہے کہ تمام وزارتوں میں جلد بلوچستان کوٹہ کی اسامیوں کو پر کیا جائے جبکہ کمیٹی کی چیئر پرسن سینیٹر کلثوم پروین نے کہا ہے کہ وزیراعظم حقوق بلوچستان پیکیج پر عمل درآمد میں سنجیدہ ہے اور رویہ انتہائی مثبت ہے  بیورو کریسی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں بری طرح ناکام ہے ۔

جمعرات کو یہاں کمیٹی کا اجلاس چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر کلثوم پروین کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤ س میں منعقد ہوا جس میں سینیٹرز ڈاکٹر سعیدہ اقبال ، روبینہ خالد ، یوسف بادینی ، کامل علی آغا ، مشاہد اللہ خان ، نجمہ حمید ، سیف اللہ بنگش کے علاوہ ایڈیشنل سیکرٹری کیڈ قصیر مجید ملک ، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کرنل (ر) صبح صادق ،ممبر پلاننگ سی ڈی اے نسیم خان کے علاوہ وزارت اطلاعات کے حکام شریک ہوئے ۔

(جاری ہے)

جلاس کو آگاہ کیا گیا کہ نیب میں بلوچستان کے چھ فیصد کوٹہ کی 15 اسامیاں خالی تھیں باقی چار کو پندرہ دنوں میں پر کر لیا جائے گا 267 تحقیقاتی افسران کو مستقل ملازم بھرتی کیا گیا ہے ۔ چیئرپرسن کلثوم پروین نے کہا کہ بہتر نتائج کی خاطر افسران کو محکمہ کے تمام شعبوں میں ٹرانسفر بھی کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ این ٹی ایس ملازمت کے امیدواروں سے فیسیں بٹورنے کا پرائیوٹ ادرہ ہے اگر این ٹی ایس نے ہی ٹیسٹ لینے ہیں تو پھر حکومت کا کیا کام ہے این ٹی ایس کا پرائیوٹ کاروبار بند کروا کر سرکاری محکمہ جات خود بھرتی کے ٹیسٹ لیں اوگرا کے بڑے سکینڈل کے حوالے سے اگلے اجلاس میں اوگرا حکا م کو موجود ہونا چاہے۔

سینیٹر ہمایوں مندوخیل نے کہا کہ ان کے رشتہ دار کی 15 کروڑ کی 23 کنال کی اراضی لینڈ مافیا قبضہ سے تین سینیٹر ز نہیں بچا سکے سینکڑوں غریب خاندانوں کی زمینوں پر قبضہ کر لیا گیا ہے گولیاں چلا کر غریبوں کو قتل کر کے لینڈ مافیا بلڈوزر چلا رہا ہے نیب اور ایف آئی اے کہا ں ہیں جس پر ڈپٹی ڈی جی نیب نے کہاکہ تحریری شکایت جمع کروائی جائے معاملہ کو فوری حل کیا جائے کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر روبینہ خالد نے کہاکہ اسلام آباد کے شہری اپنے گھروں کے سامنے لینڈ سکیپنگ کے ذریعے پھول یا پھل دار درخت لگائیں تو سی ڈی اے نوٹس جاری کر دیتا ہے تاہم پارلیمنٹ ہاؤ س کے باہر اوپن باتھ رومز بنائے گے ہیں گرین بیلٹ کو تباہ کر دیا گیا ہے اور پارلیمنٹ کے گرین ایریا کو کھوکھا شہر بنا دیا گیا لیکن سی ڈی اے نے کسی کو نہ نوٹس دیا نہ سرکاری زمین واگزار اور قابضین کو نوٹس جاری کیے جائیں ممبر پلاننگ سی ڈی اے نے کہا کہ معاملہ ضلعی انتظامیہ کے کنڑول میں ہے جس سینیٹر سعیدہ اقبال نے کہا کہ لوگ سی ڈی اے کے خلاف عدالتوں میں جاتے ہیں سی ڈی اے اسلام آباد کے حسن اور ماحولیات کو تباہ کرنے والوں کے خلاف عدالت جائے سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ اگر سی ڈی اے نے قابضین کے خلاف کارروائی نہ کی تو ممبرپارلیمنٹ بھی قوانین کی خلاف ورزی کا حق محفوظ رکھتے ہیں ممبر پلاننگ سی ڈی اے نے کہا کہ پارلیمنٹ ہاؤ س کے باہر لگنے والے کھوکھوں کو ہٹانے اور ماحولیات کو تباہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کرائی ۔

سینیٹر یوسف بادینی نے کہا کہ ریڑھے ، ٹھیلے والوں کے خلاف کارروائی کے بجائے عمران خان اور طاہر القادری سے قبضہ چھڑایا جائے اور کہا کہ سی ڈی اے اور ضلعی انتظامیہ کی ناک تلے شاہراہ دستور پر قبضہ اداروں کیلئے شرمناک ہے سینیٹر مشاہد اللہ خان اور سینیٹر نجمہ حمیدنے کہا کہ کھوکھے لگانے والے اور ریڑھے ٹھیلے والے سی ڈی اے ملازمین کے حصہ دار ہیں سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ وزارت اطلاعات ، پی آئی ڈی ، پی ٹی وی ، ریڈیو پاکستان ، میں سینکڑوں کی تعداد میں ملازمین کنٹریکٹ پر بھرتی کیے گئے ہر سیکرٹری اور ہر چیئرمین اپنے لوگوں کو بھرتی کرتے رہے جس کی وجہ سے چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی پیدا ہوا چیئرپرسن نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لاپرواہی کی حد ہے کہ چار دفعہ نوٹس بھجوانے کے باوجود وزارت اطلاعات کے اداروں کے بارے میں نامکمل تفصیلات فراہم کی گئی ہیں اراکین کمیٹی نے سی ڈی اے کی کارکردگی کو ناقص قرار دیتے ہوئے کہا کہ راتوں رات پلاٹ الاٹ کر کے دو ماہ میں کثیر المنزلہ عمارتوں کی اجازت ہے اور متاثرین 30 ، 30 سال سے در بدر ہیں اراکین کمیٹی نے سی ڈی اے کی طرف سے مارگلہ روڈ کو مکمل کرنے والے ٹھیکیداروں کے بل ادا نہ کرنے پر شدید احتجاج کیا اور کہا کہ قانون کے مطابق ٹھیکیداروں کے بلوں کی ایم بی بن جانے کے بعد ادائیگی لازم ہے اس کے برعکس حکومت کے دباؤ پر کشمیر روڈ کو وقت سے قبل مکمل کر کے ادائیگیاں کر دی گئی ہیں کمیٹی کے اجلاس میں سنٹورس کے سامنے اور حیات ہوٹل کے ساتھ مفت زمین فراہم کرنے پر تشویش کااظہار کیا گیا اور سینیٹر روبینہ خالد کے پلاٹ تک رائٹ آف وے بند کرنے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کھولنے کی ہدایت کی اور قرار دیا کہ راستہ کھولنے سے علاقے کے کئی دیہات کو فائدہ ہو گا چیئرپرسن کلثوم پروین نے کہا کہ ہر اجلاس میں ایجنڈے کو مذاق کے طور لیا جاتا ہے بیوروکریسی اجلاس میں شرکت کے قبل تیاری کر کے آیا کرے وقت گزاری نہ کی جائے حکومت اور عوام کی رقم بچائی جائے اگر اگلے اجلاس میں متعلقہ محکمہ جات کے اعلیٰ افسران بغیر تیاری آئے اور تفصیلات نامکمل ہوئیں تو اجلاس سے باہر نکال دیا جائے اور کہا کہ سی ڈی اے کا شعبہ قانون مکمل نا اہل ہے ایسے افسران بھرتی کیے گئے ہیں جن کو قانون کا الف ب کا بھی پتا نہیں اور پرائیوٹ قانونی کمپنیوں کو بھی کروڑوں کی ادائیگی کے باوجو مقدمات کے فیصلے نہیں کرائے جاسکے ایڈیشنل سیکرٹری کیڈ قیصر مجید ملک نے کہا کہ بلوچستان کے امیدواروں کے امتحان اور انٹرویو بلوچستان میں لئے جائیں گے اور اسلام آباد کے ہسپتالوں ، نیشنل لائبریری کے علاوہ دوسرے محکمہ جات میں بلوچستان کی خالی اسامیوں پر بھرتیاں جلد مکمل کر لی جائیں گی۔