اسلام آباد ،شاہراہ دستور بدستور میدان جنگ، مظاہرین اور پولیس کے درمیان آنکھ مچولی جاری،تین افراد جاں بحق، 550 سے زائد زخمی ، 24گھنٹے سے زائد وقت گزرنے کے باوجود امن قائم نہ ہوسکا،مظاہرین کو پرامن رکھنے کے دعووٴں کے باوجود کارکنان نے جنگلا توڑ کر پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطہ میں خانہ بدوشی کی سب سے بڑی بستی قائم کر لی،مظاہرین کی طرف سے رینجرز کی گاڑی،پولیس کی بکتر بند گاڑیاں،کنٹینرز جلا د ئیے ،سرکاری و نجی عمارتوں پر شدید پتھراؤ ،شا ہراہ دستور میدان جنگ کا منظر پیش کرتی رہی

اتوار 31 اگست 2014 23:20

اسلام آباد ،شاہراہ دستور بدستور میدان جنگ، مظاہرین اور پولیس کے درمیان ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔31اگست۔2014ء) وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ریڈ زون میں اتوار کو بھی پولیس اور مظاہرین کے درمیان آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری رہا ، 24گھنٹے سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود امن قائم نہ ہوسکا، جھڑپوں میں اب تک تین افراد جاں بحق اور 557 کے قریب زخمی ہوگئے ہیں ، مظاہرین کو پرامن رکھنے کے دعووٴں کے باوجود تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کارکنان نے پارلیمنٹ ہاوٴس کا جنگلا توڑ کر ایوان نمائندگان کے احاطہ میں خانہ بدوشی کی سب سے بڑی بستی قائم کر لی،24گھنٹے سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے پارلیمنٹ ہاوٴس کے احاطہ کو مظاہرین سے خالی نہ کروایا جاسکا۔

مظاہرین کی طرف سے رینجرز کی گاڑی،پولیس کی بکتر بند گاڑیاں،کنٹینرز جلا دئیے گئے جبکہ تحریک انصاف کی کارکنوں کی جانب سے کئی سرکاری ونجی عمارتوں پر شدید پتھراوٴکیا گیا۔

(جاری ہے)

پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے دوران شیلنگ اور پتھراوٴ کے نتیجے میں اب تک تین افراد جاں بحق اور 557زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا جن میں 130سے زائد پولیس اہلکار شامل ہیں۔

ہفتہ اور اتوار کی شب کے بعد اتوار کے روز بھی پولیس اور مظاہرین کے درمیان آنکھ مچولی جاری رہی جہاں پولیس پر مظاہرین کی جانب سے بھرپور پتھراوٴ جب کہ مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ جاری رہی اور شا ہراہ دستور میدان جنگ کا منظر پیش کرتی رہی ۔ تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی طرف سے شارع دستو ر سے دھرنا ختم کر کے دھرنا وزیر اعظم ہاوٴس منتقل کرنے کے اعلان کے بعد سے پولیس اور مظاہرین کے درمیان جاری جھڑپوں کو 24گھنٹے سے زائد کا عرصہ گزر گیا مگر میدان جنگ کا منظر تبدیل نہ ہوسکا۔

عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے مظاہرین کی جانب سے ہفتہ کی رات کو ہی پارلیمنٹ ہاوٴس کے مرکزی جنگلے توڑ و گیٹ توڑ کر کے احاطہ پارلیمنٹ پر قبضہ کر لیا گیا تھا جو ابھی تک بدستور برقرار ہے۔آئی جی اسلام آباد نے اتوار کی صبح تک احاطہ پارلیمنٹ کو کلیئر کرنے کا دعوی کیا تھا مگر چوبیس گھنٹے سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود یہ علاقہ کلیئر نہیں کروایا جاسکا۔

اتوار کے روز بھی مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا اور آنکھ مچولی جاری رہی اور اس دوران مسلسل دونوں طرف سے پیش قدمی جاری رہی۔اس عرصے دوران مظاہرین کی جانب سے ریڈزون میں تباہی کے بھی نئے ریکارڈ قائم کیے گئے جہاں پارلیمنٹ ہاوٴس و کابینہ ڈویژن کے گیٹس اور جنگلے توڑ دیئے گئے، شارع دستور پر لگے پودے تک جلا دیئے گئے، اسلام آباد میں پتہ بھی نہ ہلانے اور مکمل پرامن رہنے والے لیڈروں کے سامنے ان کے مشتعل کارکنان نے رینجرز کا ٹرک، پولیس کی بکتر بند گاڑیاں اور حفاظت کے لئے رکھے گئے لاکھوں روپے مالیت کے کنٹیرز تک جلا دیئے گئے۔

چوبیس گھنٹوں سے زائد وقت سے جاری ان جھڑپوں کے دوران جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد تین ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد ساڑھے پانچ سو کے قریب پہنچ گئی ہے۔پمز اور پولی کلینک ہسپتالوں کے ترجمانوں کے مطابق جاں بحق افراد میں چوبیس سالہ رفیع اللہ آف بھکر ،گلفام بھٹی اور نوید رضا شامل ہی ان میں سے رفیع اللہ کو سر میں اور گلفام بھٹی کو پیٹ میں ربڑ کی گولیاں ماری گئی تھیں جو ان کی موت کا باعث بنیں جبکہ نوید رضا پانی کے گڑھے میں گرنے سے ہارٹ اٹیک کے باعث چل بسا۔

ترجمان ڈاکٹر وسیم خواجہ کے مطابق پمز ہسپتال میں مجموعی طور پر 223 زخمیوں کو لایا گیا جن میں 141 خواتین ، 41سکیورٹی اہلکار جبکہ باقی مرد مظاہرین شامل ہیں۔پولی کلینک میں 257 زخمیوں کو لایا گیا جن میں 43پولیس اہلکار ، 35خواتین اور 7بچے شامل تھے۔ ۔ادھر پارلیمنٹ ہاوٴس کے اندر بسائی گئی خیمہ بستی نے دنیا کے سامنے پاکستان کی ایک نئی تصویر پیش کر دی ہے جو اس بات کی عکاسی کر رہی ہے کہ ایک ایٹمی ملک میں حکومت کی رٹ اس قدر بھی کمزور ہو سکتی ہے کہ ملک کی واحد نمائندہ پارلیمان او ر دستور کی سب سے بڑی علامت پارلیمنٹ ہاوٴس کے احاطہ میں ایک بہت بڑی خیمہ بستی آباد کر رکھی ہے یا اسے خانہ بدوشوں کا خوبصورت ترین اور ترقی یافتہ ترین علاقہ کہا جا سکتا ہے۔

اس ساری صورتحال نے دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کو عملی طور پر ایک بنانا سٹیٹ بنا دیا ہے جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا منظر ہے اور کوئی اس بات کی مذمت کرنے کے لئے تیار نہیں کہ اختلافا ت و مطالبات اپنی حد تک مگر پارلیمان اور ریاست کی عزت و قیمت کیا یہی ہوتی ہے؟۔