پاکستان کی پارلیمنٹ یا خانہ بدوشوں کی بستی، ملک کی پارلیمانی تاریخ کا انوکھا منظر،پہلی بار کسی تنظیم کے کارکنوں نے پارلیمنٹ کے سبزہ زار میں ڈیرے ڈال لئے، اتوار کو گزری ہوئی رات اور پھر دن میں جو منظر پاکستانی قوم نے دیکھا ایسا منظر پارلیمانی تاریخ میں شائد ہی کہیں دیکھا گیا ہو،ایوان کا تقدس قائم رکھنا کس کی ذمہ داری تھی…؟ پارلیمنٹ کا سیاستدانو ں سے خاموش سوال…؟، جواب کون دیگا

اتوار 31 اگست 2014 21:37

پاکستان کی پارلیمنٹ یا خانہ بدوشوں کی بستی، ملک کی پارلیمانی تاریخ ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔31اگست۔2014ء) پاکستان کی پارلیمنٹ یا خانہ بدوشوں کی بستی، ملک کی پارلیمانی تاریخ کا انوکھا منظر، پہلی بار کسی تنظیم کے کارکنوں نے پارلیمنٹ کے سبزہ زار میں ڈیرے ڈال لئے، اتوار کو گزری ہوئی رات اور پھر دن میں جو منظر پاکستانی قوم نے دیکھا ایسا منظر پارلیمانی تاریخ میں شائد ہی کہیں دیکھا گیا ہو،ایوان کا تقدس قائم رکھنا کس کی ذمہ داری تھی…؟ پارلیمنٹ کا سیاستدانو ں سے خاموش سوال…؟، جواب کون دیگا۔

آج کل پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے انقلاب و دھرنا مارچ کے بعد صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ 14 اگست کو لاہور سے چلنے والے قافلے 16 اگست کو اسلام آباد آبپارہ کے قریب پڑاؤ ڈالتے ہیں جہاں 3 روز کے قیام کے بعد ریڈ زون میں داخل ہوجاتے ہیں اور پولیس کی جانب سے کسی مزاحمت کا سامنا نہیں ہوتا لیکن جیسے ہی انقلاب و آزادی مارچ کے دھرنا کو 18دن ہوتے ہیں تو یہ اپنی اگلی منزل کی جانب بڑھتے ہیں اور ڈاکٹر طاہر القادری مذاکرات سے انکاری ہوتے ہوئے وزیراعظم ہاؤس کی جانب بڑھنے کا اعلان کردیتے ہیں ساتھ ہی تلقین کرتے ہیں کہ کارکنان پرامن رہیں لیکن پولیس کے اہلکاروں کو کارروائی نہ کرنے کی التجا بھی کی جاتی ہے کیسے پرامن کارکن جن کے پاس کرین جیسی سہولت بھی موجود ہے جیسے ہی اسٹبلشمنٹ ڈویژن کی عمارت کے پاس لگے کنٹینرز کو ہٹاتی ہے اور مزید آگے بڑھتی ہے تاکہ آخری رکاوٹ عبور کر کے وزیراعظم ہاؤس کی جانب گامزن ہوں لیکن پولیس کی جانب سے وارننگ کی جاتی ہے جس پر ایک نہ سنی گئی اور آگے بڑھنے کے اعلانات کئے جاتے رہے اور بالآخر شیلنگ شروع ہوجاتی ہے جس کے باعث غصے میں آکر کارکنان وزیراعظم ہاؤس کی بجائے پارلیمنٹ کا رخ کرتے ہیں اور ایک ٹرک کی مدد سے30اگست کی رات عین اس جگہ سے پارلیمنٹ کا جنگلہ توڑ کر پارلیمان کا تقدس پامال کرتے ہیں جہاں کچھ دیر قبل ڈاکٹر طاہر القادری کا کنٹینر موجود تھا اور ہزاروں کارکنان پارلیمنٹ کے سبزازار میں پہنچ جاتے ہیں جوکہ اب ایک خیمہ بستی کا منظر پیش کررہی ہے ۔

(جاری ہے)

پارلیمنٹ کمپلیکس کا افتتاح 28 مئی 1986ء کوہوا اور شاندار بلڈنگ تیار ہوئی لیکن کیا معلوم تھا کہ پارلیمانی تاریخ کا ایک انوکھا احتجاج ہوگا اور پارلیمان کا تقدس پامال ہوگا ۔ ایسا لگتاہے کہ جیسے مقدس ایوان کا سبزہ زار نہیں خانہ بدوشوں کی بستی ہے جوکہ کچھ دن قیام کے بعد شائد اگلی منزل پر رواں دواں ہوجائینگے۔ ایسا لگتاہے کہ پارلیمنٹ ہاؤس تمام سیاسی و جمہوری قوتوں سے خاموش سوال کررہی ہے …؟ لیکن اس کا جواب دینے کی ہمت کون کرے گا، ایوان کا تقدس قائم رکھنا کس کی ذمہ داری تھی…؟ کیا ہماری ریاست کی علامت عمارتوں کی بے حرمتی آئندہ بھی ایسے ہی ہوگی یا اس کا تحفظ بھی یقینی بنایا جاسکے گا۔

متعلقہ عنوان :