کوہستان ویڈیو کیس کے حقائق بے نقاب کرنے پر نجی ٹی وی کے رپورٹر صحافی حسیب خواجہ پر قاتلانہ حملہ، تھانہ آبپارہ میں چار روز مقدمہ درج ،مقدمہ کے اندراج میں دیر سے ملزم فرار ہونے میں کامیاب

بدھ 11 جون 2014 22:29

کوہستان ویڈیو کیس کے حقائق بے نقاب کرنے پر نجی ٹی وی کے رپورٹر صحافی ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔11جون۔2014ء) کوہستان ویڈیو کیس کے اصل حقائق بے نقاب کرنے پر نجی ٹی وی چینل کے رپورٹر و نوجوان صحافی حسیب خواجہ پر قاتلانہ حملہ، تھانہ آبپارہ پولیس نے چار روز مقدمہ درج کر لیا تاہم مقدمہ کے اندراج میں دیر سے ملزم فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔دوسری جانب سے متاثرہ صحافی کے مطابق پولیس نے جان بوجھ کر ملزم کو گرفتار کرنے میں تاخیربرتی اور اسے مبینہ طور پر فرار کروانے میں مدد فراہم کی جبکہ حملہ آورکا اکثر اس کا توں تکرار رہتا تھا کہ وہ اس طرح کے معاملات اٹھا کر ملک کا بدنام کر رہا ہے اگر باز نہ آئے تو جان سے مار دونگا ۔

تفصیلات کے مطابق کوہستان ویڈیو کیس کے اصل حقائق بے نقاب کرنے اور کیس کے پس پردہ ملزمان کے خلاف انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس سے رجوع کرنے کے فیصلے پر نجی ٹی وی چینل( اب تک نیوز) کے رپورٹر و نوجوان صحافی حسیب خواجہ پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے جہاں سمیع اللہ بھٹو نامی ملزم نے مذکورہ صحافی پر حملہ کیا اور اسے مارنے کی کوشش کی تاہم ان کے دیگر ساتھیوں نے وقت پر پہنچ کر اسے بچا لیا۔

(جاری ہے)

اس حوالے سے حسیب خواجہ نے آن لائن کو بتایا کہ وہ حسب معمول پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے بعد اپنی رہائش گاہ پر واقع گلی نمبر 31مکان نمبر 26پہنچا تو اس پر مذکورہ ملزم نے پیچھے سے حملہ کر کے گلے سے دبوچ لیا جہاں اس نے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی اور اسی دوران شور شرابہ سن کر اس دیگر ساتھی پہنچ آئے جنہوں نے اسے بہت مشکل سے بچایا۔انہوں نے مزید بتایا کہ اس واقعہ سے متعلق اس نے زخمی حالت میں تھانے پہنچ کر درخواست دی جہاں آبپارہ پولیس نے اس کا میڈیکل کروایا اور ملزم کو بلایا کر واقعہ کی تفصیل دریافت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ سب انسپکٹر یاسین جو کہ وقوعہ کے روز ڈیوٹی افسر تھے کو مکمل تفصیلات اور میڈیکل رپورٹ بھی فراہم کی گئی مگر انہوں نے مقدمہ درج کرنے میں مسلسل تاخیر کی ،ان کا کہناتھا کہ تفتیشی افسر نے اس پر ناصرف صلح کے لئے دباوٴ ڈالا بلکہ میڈیکل رپورٹ میں بھی مبینہ طور پر ساز باز کر کے میڈیکل رپورٹ جان بوجھ ایسی میڈیکل رپورٹ تیار کی جس سے ملزم کو فائدہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے عملا مقدمہ درج کرنے سے انکار کیا جس پر اسلام آباد کرائم اینڈ کورٹ رپورٹرز ایسوسی ایشن نے معاملہ میں نے ذاتی طور پر ایس ایچ او تھانہ آبپارہ و اعلی افسران سے رابطہ کر نے کے تفتیشی افسر کو تبدیل کیا جس کے بعد واقعہ کا مقدمہ نمبر 259/2014زیر دفعہ 337Fi,506/337Aiدرج کر کے تحقیقات شروع کی ہیں مگر ملزم کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا۔

دوسری جانب سے پولیس کے مطابق ملزم اس وقت اسلام آباد میں نہیں البتہ پولیس اسے گرفتار کر نے کی کوشش کر رہی ہے۔واضح رہے حسیب خواجہ نے کوہستان ویڈیو کیس کی دوبارہ سے تحقیقات کر کے اس بات کو ثابت کیا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والی چاروں لڑکیوں سمیت پانچ لڑکیوں کو قتل کر دیا گیا تھا اور سپریم کورٹ کے حکم پر بھیجے گئے کمیشن کے سامنے بھی ان لڑکیوں کو پیش نہیں کیا گیا تھا بلکہ ان کی شکل سے مشابہت رکھنے والی لڑکیوں کو پیش کر کے معاملے کو دبایا گیا تھا۔

اس حوالے سے کوہستان کے سابق ایم پی اے مولانا دلدار و 27قبائل پر مشتمل 52رکنی کمیٹی نے بھی مشترکہ بیان دیا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والی چار لڑکیوں کو مار دیا گیا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ایک اور لڑکی کو بھی بے گناہ قتل کیا گیا تھا۔حسیب خواجہ کے مطابق سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کا تمام حقائق جاننے کے باوجود جانبدرانہ کردار تھا اورموجودہ چیف جسٹس آف پاکستان اس کیس کو دوبارہ نہیں کھول رہے اس لئے وہ جلد ہی اس معاملے پر انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس سے رجوع کریں گے۔

متعلقہ عنوان :