بھارتی فوج کے نامزد سربراہ پر سابق فوجی سربراہ کا الزام، سابق فوجی سربراہ جنرل وی کے سنگھ نے فوج کے نامزد سربراہ پر ’بے گناہوں کے قاتلوں اور ڈاکہ ڈالنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش‘ کا الزام عائد کردیا، ’فوج کی تقرریوں کو سیاست سے الگ رکھا جانا چاہیے،وزیر دفاع ارون جیٹلی

بدھ 11 جون 2014 22:12

بھارتی فوج کے نامزد سربراہ پر سابق فوجی سربراہ کا الزام، سابق فوجی ..

نئی دہلی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔11جون۔2014ء) ہندوستانی فوج کے سابق سربراہ اور اب وفاقی وزیر جنرل وی کے سنگھ نے فوج کے نامزد سربراہ پر ’بے گناہوں کے قاتلوں اور ڈاکہ ڈالنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش‘ کا الزام لگایا ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق جنرل سنگھ اور نامزد سربراہ لیفٹیننٹ جنرل دلبیر سنگھ سوہاگ کے درمیان اختلافات پرانے ہیں۔

جنرل سنگھ نے فوج کے سربراہ کی حیثیت سے جنرل سوہاگ کے خلاف تادیبی کارروائی کی تھی لیکن فوج کے موجودہ سربراہ جنرل بکرم سنگھ نے عہدہ سنبھالنے کے چند ہی دنوں کے اندر یہ حکم واپس لے لیا تھا۔لیکن جنرل وی کے سنگھ کے بیان کے پس منظر میں پارلیمان میں بات کرتے ہوئے وزیر دفاع ارون جیٹلی نے کہا کہ ’فوج کی تقرریوں کو سیاست سے الگ رکھا جانا چاہیے۔

(جاری ہے)

جہاں تک حکومت کا سوال ہے، جنرل سہاگ کی تقرری حتمی ہے۔یہ تنازع فوج کے ایک انٹیلی جنس یونٹ کی سرگرمیوں کے بارے میں ہے۔ الزام یہ تھا کہ دسمبر 2011 میں شمال مشرقی ریاست آسام کے جورہٹ علاقے میں اس یونٹ نے غیر قانونی کارروائیاں کی تھیں لیکن اس وقت کے کور کمانڈرجنرل سہاگ نے اس یونٹ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔تاہم فوج کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے وقت جنرل سہاگ چھٹی پر تھے اور قصوروار پائے جانے والے فوجیوں کو سزا دی جا چکی ہے۔

جنرل سہاگ کو فوج کا نیا سربراہ نامزد کیے جانے کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی گئی تھی جس میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ (کانگریس کی) حکومت نے ان کی تقرری میں ’طرفداری‘ سے کام لیا ہے۔جنرل دلبیر سنگھ سوہاگ 31 جولائی کو اپنے نئے عہدے کی ذمہ داری سنبھالیں گییہ کیس سپریم کورٹ میں ہے جہاں وزارت دفاع نے جنرل سوہاگ کی تقرری کے دفاع میں ایک حلف نامہ داخل کیا تھا جس میں جنرل وی کے سنگھ کی جانب سے تادیبی کارروائی کو ’غیر ضروری اور غیر قانونی‘ بتایا گیا ہے۔

وزارت دفاع کے اس حلف نامے کے بعد کانگریس نے مطالبہ کیا ہے کہ جنرل سنگھ یا تو خود مستعفی ہو جائیں یا انھیں برخاست کیا جائے کیونکہ حلف نامے میں ان کے لیے جو زبان استعمال کی گئی ہے اس کے بعد ان کے وزارتی کونسل میں قائم رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔لیکن جنرل سنگھ نے فوراً ہی ٹوئٹر پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: ’اگر یونٹ بے گناہوں کو قتل کرے، ڈکیتی ڈالے اور پھر ادارے کا سربراہ انھیں بچانے کی کوشش کرے، تو کیا اسے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے؟ مجرموں کو آزاد گھومنا چاہیے؟بتایا جاتا ہے کہ وزیر دفاع ارون جیٹلی نے حلف نامے میں استعمال کی جانے والی زبان پر وزارت دفاع کے افسران کو آڑے ہاتھوں لیا ہے، لیکن قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ حلف نامہ کانگریس کی حکومت کے دوران بھی فوج کے ٹریبیونل کے سامنے داخل کیا گیا تھا۔

جنرل وی کے سنگھ نے بھی کہا کہ ’یہ وہی حلف نامہ ہے جو یو پی اے کی حکومت کیدوران فوج کے ٹریبیونل کے سامنے داخل کیا گیا تھا، اس میں نیا کیا ہے؟جرنل سنگھ، جو اب شمال مشرقی ریاستوں اور خارجہ امور کے وزیر ہیں، مئی 2012 میں ریٹائر ہو گئے تھے لیکن عہدہ چھوڑنے سے پہلے انھوں نے مشرقی کمان کے سربراہ کی حیثیت سے جنرل سوہاگ کی تقرری روکنے کی کوشش کی تھی۔

اگر جنرل سوہاگ کو یہ عہدہ نہ ملتا تو وہ فوج کے سربراہ کی دوڑ سے باہر ہو جاتے۔جنرل وی کے سنگھ اور کانگریس کی حکومت کے درمیان ان کی تاریخ پیدائش کے متعلق تنازعے پر تلخی اس قدر بڑھ گئی تھی کہ جنرل سنگھ نے فوج کے سربراہ کے عہدے پر فائز رہتے ہوئے حکومت کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ لیکن عدالت نے ان کے موقف سے اتفاق نہیں کیا تھا۔

متعلقہ عنوان :