ترکی ،بچی کی پیدائش جرم بن گئی

ہفتہ 7 جون 2014 17:35

ترکی ،بچی کی پیدائش جرم بن گئی

انقرہ(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 7جون 2014ء) ترکی میں ایک سنگ دل شخص نے دوسری مرتبہ بھی بیٹی جننے کی سزا کے طور پر اپنی بیوی کو بجلی کے جھٹکے دے کر موت کی نیند سلا دیا ہے۔عرب ٹی وی کے مطابق وہ رات کو جب یہ فعل انجام دے رہا تھا ،عین اس وقت اس نے پولیس کو فون کرکے اپنے ارادے سے آگاہ کردیا تھا لیکن پولیس اس جرم کو رونما ہونے سے روکنے میں ناکام رہی تھی۔

انتیس سالہ قاتل ترکی کے جنوب مشرقی صوبے دیار بکیر سے تعلق رکھتا ہے۔اس نے عدالت کے روبرو بیان دیتے ہوئے بیوی کے قتل سے انکار نہیں کیا ہے۔اس نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے جنوری میں اپنی بچی کی پیدائش کے دوسرے روز ہی اپنی بیوی کی گردن کے نیچے سوتے میں بجلی کا تار لگا دیا تھا۔ترک روزنامے وطن نے بیوی کے اس قاتل اور پولیس آپریٹر کے درمیان وقوعہ سے چندے قبل ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کی تفصیل صفحہ اول پر شائع کی ہے۔

(جاری ہے)

اس نے پولیس کو فون کرکے بتایا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو مارنا چاہتا ہے۔پولیس آپریٹر اور اس کے دوران یہ گفتگو ہوئی تھی،''میں نے کسی کو قتل کردیا ہے''۔اس شخص نے پولیس آپریٹر کو بتایا۔''تم نے قتل کیوں کیا؟''دوسری جانب سے پولیس افسر نے پوچھا۔''میں اس وقت اپنی بیوی کو قتل کرنے والا ہوں''۔اس شخص نے کہا۔کیا تم نے اس کو قتل کردیا ہے یا اس کو قتل کرنے والے ہو''۔

پولیس افسر نے پوچھا۔''بہتر۔ وہ ابھی مری نہیں ہے لیکن میں اس کو قتل کررہاہوں ،پھر اس پولیس افسر نے پوچھا کہ ''کیا اس کا اپنی بیوی کے ساتھ کوئی تنازعہ ہے''۔اس کے جواب میں اس نے کہا :''میں آپ سے یہ کہہ رہا ہوں کہ میں نے اپنی بیوی کو قتل کردیا ہے اور تم پوچھ رہے ہو کہ مسئلہ کیا تھا''۔پھر اس نے کہا کہ ''میں نے اس کا منہ بند کردیا ہے کیونکہ اس کی جان نکل رہی تھی''۔

اس مرحلے پر پولیس آپریٹر ایکشن میں آیا اور اس نے کہا کہ ''اوکے۔انتظار کرو۔میں ایک یونٹ کو بھیج رہا ہوں''۔وکیل صفائی نے مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا کہ اس کے موکل نے اس لیے اپنی بیوی کو قتل کیا تھا کیونکہ اس نے ایک مرتبہ پھر بیٹی کو جنم دیا تھا۔ان وکیل صاحب نے قتل کا جواز تو بڑے آرام سے بیان کردیا اور ایک طرح سے اپنے موکل کی وکالت کا حق ادا کرتے ہوئے اس کے فعل کا دفاع کیا ہے۔

دوسری جانب وکیل نے پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ مشتبہ قاتل کو جرم سے باز رکھنے میں ناکام رہی تھی۔اس نے عدالت میں کہا کہ ''اگر اعلیٰ تربیت یافتہ پولیس افسر فون پر ہوتا تو مقتولہ عورت آج زندہ ہوتی''۔مشتبہ قاتل کرد اکثریتی علاقے میں ایک ریستوراں میں ویٹر ہے اور اس کی اس خاتون سے پہلے ایک چار سالہ بچی ہے۔انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ یہ اندوہناک واقعہ ترکی میں خواتین پر گھریلو تشدد کی تازہ مثال ہے۔

یادرہے کہ انقرہ کی ایک یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال مردوں کے ہاتھوں دوسو چودہ عورتیں اور دس بچے مارے گئے تھے۔اس مطالعے کے مطابق پندرہ فی صد خواتین کو محض اس بنا پر قتل کردیا گیا تھا کہ انھوں نے اپنے خاوندوں سے طلاق مانگی تھی۔ان کارکنان کا کہنا ہے کہ ترکی میں خواتین پر گھریلو تشدد روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جارہے ہیں۔

متعلقہ عنوان :