میرس وائرس اونٹ سے انسان میں منتقل ہوا،ڈاکٹرز، شہری اونٹوں کے قریب جاتے وقت ہاتھوں میں دستانے اور منہ پر ماسک پہنیں،سعودی عرب کاانتباہ

جمعرات 5 جون 2014 20:55

میرس وائرس اونٹ سے انسان میں منتقل ہوا،ڈاکٹرز، شہری اونٹوں کے قریب ..

لندن،جدہ (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔5جون۔2014ء) ڈاکٹروں کا کہناہے کہ ایسے شواہد حاصل ہو گئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ خطرناک میرس وائرس اونٹوں سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے۔سعودی عرب اب تک میرس یعنی مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سنڈروم سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور اس وائرس کی زد میں 2012 سے اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد 204 تک پہنچ گئی ہے۔سعودی عرب کی حکومت نے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ پراسرار ’میرس‘ وائرس سے بچنے کے لیے اونٹوں کے قریب جاتے وقت ہاتھوں میں دستانے اور منہ پر ماسک پہنیں۔

معروف طبی جریدے نیوانگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق سعودی عرب میں ایک اونٹ اور اس کے ہلاک ہونے والے 44 سالہ مالک میں پائے جانے والے وائرس کے نمونے یکساں تھے۔

(جاری ہے)

اس شخص کا علاج جدہ کے کنگ عبدالعزیز ہسپتال میں کیا گیا تھا۔ اس شخص کے نو اونٹ تھے اور اونٹوں کے بیمار ہونے کے فوراً بعد یہ شخص خود بھی بیمار ہو گیا تھا۔

ہلاک ہونے والے شخص کو دی جانے والی ادویات کے نسخوں سے معلوم ہوا ہے کہ اس نے اونٹ کا علاج کرنے کے لیے اسے ناک کے ذریعے دوا کے قطرے دئیے تھے۔اس شخص میں پائے جانے والے وائرس اور اونٹ میں پائے جانے والے وائرس کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ دونوں انفرادی نمونوں سے لیے جانے والے ڈی این اے کے نمونے یکساں تھے۔’حاصل شدہ معلومات کے مطابق انسانوں میں خطرناک مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سنڈروم کرونا وائرس ایک متاثرہ اونٹ کے قریب جانے سے انسانوں میں منتقل ہوا۔

‘ناٹنگھم یونیورسٹی میں وائرس سے پیدا شدہ امراض کے ماہر پروفیسر جوناتھن بال نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’تمام شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ اونٹ ہی قصور وار ہے۔ یہ غالباً پہلی بار ہے جب دونوں میں پایا جانے والا وائرس یکساں ہے اور اس کے نتیجے میں یہ انسانوں میں منتقل ہوا۔‘ابھی تک یہ معلوم کرنا باقی ہے کہ آیا متاثرہ شخص جو اونٹ کے ناک میں قطرے ڈال رہا تھا اس میں یہ وائرس سانس ہی کے ذریعے منتقل ہوا، کیونکہ اونٹنی کے دودھ میں بھی وائرس کی قابلِ ذکر مقدار پائی گئی ہے۔

کیمبرج میں ویلکم ٹرسٹ سینگر انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر پال کیلم نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس تحقیق سے اس بات کو مزید تقویت ملتی ہے کہ مڈل ایسٹ ریسیپائریٹری سنڈروم کرونا وائرس اونٹوں ہی سے پھیلا ہے اور پہلی بار اونٹ میں اس وائرس کو الگ یا شناخت کیا گیا ہے۔تاہم حال میں شائع ہونے والی دیگر تحقیقات میں انسانوں میں اس مرض کی تصدیق ہونے کے بعد اونٹوں سے جو نمونے حاصل کیے گئے ان میں یہ ثابت کرنا مشکل تھا کہ حتمی طور پر یہ وائرس کہاں سے آیا۔جون 2012 میں اس وائرس کے پہلی بار منظرعام پر آنے کے بعد سے اب تک 681 افراد اس سے متاثر ہو چکے ہیں۔ابھی اب تک حتمی طور پر معلوم نہیں کہ وائرس کہاں سے آیا، لیکن کہا جاتا ہے یہ سعودی عرب میں اونٹوں سے انسانوں میں پھیلا ہے۔

متعلقہ عنوان :