ایف بی آر کے ملازم کو 30سال میں سرکاری گھر نہ مل سکا،اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسٹیٹ آفس سے ریکارڈ طلب کر لیا،الاٹمنٹ غلط ثابت ہوئی تو 1983 ء سے گھروں کی تمام الاٹمنٹ منسوخ کردینگے، جسٹس نورالحق قریشی،جو لوگ پیسے دیتے ہیں انہیں جلدی گھر مل جاتا ہے جن کے پاس کوئی سفارش نہیں ہوتی دیکھتے ر ہتے ہیں،ریمارکس

جمعرات 29 مئی 2014 19:59

ایف بی آر کے ملازم کو 30سال میں سرکاری گھر نہ مل سکا،اسلام آباد ہائیکورٹ ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔29مئی۔2014ء) اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ملازم قاضی اختر محمود کووزارت ہاؤسنگ و تعمیرات کی طرف سے 30سال گزر جانے کے باوجود سرکاری گھر الاٹ نہ کرنے پرسٹیٹ آفس سے ریکارڈ طلب کر لیا ہے اور جسٹس نورالحق این قریشی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ الاٹمنٹ غلط ثابت ہوئی تو عدالت1983 ء سے گھروں کی تمام الاٹمنٹ منسوخ کر دے گی ۔

1983 ء سے لیکر 2014 ء تک درخواست گزار کو گھر الاٹ نہیں کیا جا سکا جو لوگ پیسے دیتے ہیں انہیں جلدی گھر مل جاتا ہے لیکن جن کے پاس کوئی سفارش نہیں ہوتی اس کو گھر نہیں مل سکتا۔فاضل جج نے سٹیٹ آفیسر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ1983ء سے درخواست گزار نے گھر کی الاٹمنٹ کے لئے درخواست دی لیکن آج تک گھر نہیں مل سکا۔

(جاری ہے)

عدالت عالیہ نے اسٹیٹ آفیسر سے ریکارڈ طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اگر گھروں کی الاٹمنٹ قانونی طور پر ثابت نہ ہو ئی تو 1983 ء سے لیکر2014 ء تک تمام گھروں کی الاٹمنٹ عدالت کینسل کرے گی ۔

جمعرات کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں قاضی اختر محمود بنام وزارت ہاؤسنگ و تعمیرات کیس کی سماعت ہوئی ۔جسٹس نورالحق این قریشی پر مشتمل سنگل بنچ نے کیس کی سماعت کی۔درخواست گزار کے وکیل ملک ثاقبت محمود عدالت عالیہ میں پیش ہوئے جبکہ اسٹیٹ آفیسر قیصر بھی عدالت عالیہ میں پیش ہوئے۔ درخواست گزار کے فاضل وکیل نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ قاضی محمود اختر جو کہ فیڈرل ریونیو بورڈ میں گریڈ14 بطور اسسٹنٹ پر کام کررہے ہیں ۔

انہوں نے1983 ء میں سرکاری گھر کے حصول کے لئے درخواست دی لیکن 30 سال گزرنے کے باوجود درخواست گزار کو سرکاری گھر الاٹ نہیں ہو سکا۔درخواست گزار جو کہ ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچ چکا ہے جبکہ دیگر لوگوں کو محکمہ نے گھر الاٹ کر دیئے ہیں۔فاضل وکیل نے بتایا کہ درخواست گزار کے دیگر ساتھی جو کہ بڑی بڑی پوسٹوں پر پہنچ گئے ہیں ۔درخواست گزار کے پاس سفارش نہیں تھی اس لئے گھر الاٹ حاصل کرنے میں کامیا ب نہیں ہو سکا ۔

درخواست گزار نے وزیر اعظم ہاؤس کو بھی کئی بار گھر کے حصول کے لئے درخواست دی لیکن شنوائی نہیں ہوئی ۔ دلائل مکمل ہونے کے بعد فاضل وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ مجھے اپنی پٹیشن میں ترامیم کی اجازت دی جائے۔گھروں کی الاٹمنٹ کے لئے عدالت عظمی کا فیصلہ بھی موجود ہے ۔فاضل جج نے درخواست گزار کے وکیل کی استدعا منظور کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اگر گھروں کی الاٹمنٹ غلط ثابت ہوئی تو عدالت1983 ء سے گھروں کی تمام الاٹمنٹ منسوخ کر دے گی ۔عدالت عالیہ کے فاضل جج نے اسٹیٹ آفیسر سے ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ پیشی پر ریکارڈ عدالت میں پیش کیا جائے اور مزید کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔

متعلقہ عنوان :