پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس،سی ڈی اے میں بڑی بے قاعدگیوں کے انکشافات،سیکرٹری کابینہ کا سی ڈی اے کے آڈٹ اعتراضات کا جواب دینے سے انکار، کمیٹی نے سی ڈی اے سے 2010 ء میں غیر قانونی طور پر پلاٹوں کی الاٹمنٹ کا معاملہ نیب کو بھیج دیا،سابق چیئرمین سی ڈی اے طلب،سنٹورس اربوں روپے کا نادہندہ، پلاٹ کیلئے کی گئی تمام ادائیگیوں کی تفصیلات طلب ، غیر قانونی تعمیرشدہ سرکاری عمارتوں سے وصولی اور عدم ادائیگی پر عمارتیں گرانے کی ہدایت،شٹل سروس کا ٹھیکہ مجھے دیں ایک لاکھ روپے روزانہ دینے کیلئے تیار ہوں،شیخ رشید کی پیشکش

بدھ 28 مئی 2014 20:44

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس،سی ڈی اے میں بڑی بے قاعدگیوں کے انکشافات،سیکرٹری ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔28مئی۔2014ء) قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں وفاقی ترقیاتی ادارہ (سی ڈی اے) کی ملی بھگت سے انیس افراد کو 2010ء میں جعلی طریقے سے پلاٹوں کی الاٹمنٹ ‘ ڈپلومیٹک انکلیو کیلئے شروع کی گئی شٹل بس سروس کی فائل غائب ہونے ‘ سنٹورس کی انتظامیہ کے سی ڈی اے کی اربوں روپے کی نادہندہ ہونے اور بلڈنگ پلاننگ کی منظوری کے بغیر پٹرولیم ہاؤس‘ کے آر ایل بلڈنگ‘ فیڈرل فلڈ کمیشن بلڈنگ کے غیر قانونی تعمیر ہونے کا انکشاف ہوا ‘ سیکرٹری کابینہ اخلاق تارڑ نے سی ڈی اے کے آڈٹ اعتراضات کا جواب دینے سے انکار کردیا۔

کمیٹی نے 2010 ء میں غیر قانونی طور پر پلاٹوں کی الاٹمنٹ کا معاملہ نیب کو بھیجتے ہوئے اس وقت کے چیئرمین سی ڈی اے کو طلب کرلیا۔

(جاری ہے)

جبکہ سنٹورس کے معاملے پر پلاٹ کیلئے کی گئی تمام ادائیگیوں کی تفصیلات طلب کرلیں اور غیر قانونی طور پر بنائی گئی سرکاری عمارتوں کے ذمہ داروں سے وصولی کرنے کی ہدایت کردی اور کہا کہ ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں عمارتوں کو گرا دیا جائے، رکن کمیٹی شیخ رشید نے پیش کش کی ہے کہ یہ ٹھیکہ اگر مجھے دے دیا جائے تو ایک لاکھ روپے روزانہ دینے کیلئے تیار ہوں۔

بدھ کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین سید خورشید شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا ‘ اجلاس میں کابینہ ڈویژن کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا‘ کمیٹی کو آڈٹ حکام نے بتایا کہ سی ڈی اے افسران کی ملی بھگت سے 2010 ء میں انیس افراد نے جعلی طریقے سے پلاٹوں کی الاٹمنٹ کروائی جس سے قومی خزانے کو 27 کروڑ ساٹھ لاکھ روپے کا نقصان ہوا‘ چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ چار سال قبل اتنا بڑا فراڈ ہوگیا ہے اس پر ایکشن کیوں نہیں ہوا‘ کمیٹی نے 2010 ء میں چیئرمین سی ڈی اے کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دے دیا۔

سیکرٹری کابینہ اخلاق تارڑ نے بتایا کہ جن لوگوں نے پلاٹ لئے انہوں نے یہ پلاٹ آگے بیچ دیئے ہیں۔ معاملہ نیب کو بھجوا رہے ہیں، کمیٹی نے سی ڈی اے میں کرپشن کیس کی محکمانہ انکوائری نہ کرانے پر بھی برہمی کا اظہار کیا۔ کمیٹی نے کہا کہ ذمہ داروں کے خلاف ایف آئی آر کیوں نہیں درج کرائی گئی۔ چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ اس وقت سی ڈی اے کے سات کیسز نیب‘ چار ایف آئی اے‘ اور پندرہ عدالتوں میں ہیں۔

آڈٹ حکام نے بتایا کہ ڈپلومیٹک انکلیو کیلئے شروع کی گئی شٹل بس سروس کی فائل غائب ہوگئی ہے۔ ٹھیکے کے تحت سات سال کیلئے ہر مسافر سے مئی 2015 ء تک 200 روپے لئے جائیں گے۔ چیئرمین سی ڈی اے نے بتایا کہ فائل دوبارہ تیار کرلی ہے جوڈیشل کمیشن بھی قائم کیا گیا ہے شٹل سروس کیس کی انکوائری شروع کردی ہے۔ پی اے سی نے انکوائری افسر سے پوچھا کہ شٹل سروس کا ٹھیکہ کس کو دیا گیا ہے۔

انکوائری افسر ممبر فنانس سی ڈی اے نے کہا کہ کیس کی فائل گم ہوگئی ہے مجھے نہیں پتہ ٹھیکہ کس کے پاس ہے۔ چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ جس انکوائری افسر کو یہ نہیں پتہ کہ ٹھیکہ کس کے پاس ہے وہ کیا انکوائری کرے گا؟ چیئرمین سی ڈی اے نے بتایا کہ شٹل سروس کا ٹھیکہ محمد حسین نامی شخص کو دیا گیا ہے محمد حسین سال صرف 44 ہزار روپے سی ڈی اے کو دیتا ہے لیکن ہر مسافر سے 200 روپے وصول کئے جاتے ہیں جس وقت ٹھیکہ دیا گیا اس وقت کامران لاشاری چیئرمین سی ڈی اے تھے۔

پی اے سی نے کہا کہ کل تک بتایا جائے کہ کس نے شٹل سروس کا ٹھیکہ دیا‘ ایم او یو کب سائن ہوا اور کتنے مسافر روزانہ سفر کرتے ہیں۔ رکن کمیٹی شیخ رشید نے کہا کہ یہ ٹھیکہ اگر مجھے دے دیا جائے تو ایک لاکھ روپے روزانہ دینے کیلئے تیار ہوں۔ آڈٹ حکام نے سی ڈی اے کے کچا چٹھا کھول دیا ہے۔ آڈٹ حکام نے بتایا ہے کہ شٹل سروس کیلئے سی ڈی اے نے محمد حسین کو 4.9 ایکڑ اراضی لیز پر دی۔

اراضی کے سالانہ 44000 روپے وصول ہوتے ہیں۔ سی ڈی اے کو محمد حسین نے شٹل سروس ٹھیکے میں مد میں ایک روپیہ بھی نہیں دیا ۔ پی اے سی نے ٹھیکے کے اجراء پر شدید برہمی کا اظہار کیا ۔ چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ ٹھیکہ دینے والے اور معاہدے پر دستخط کرنے والوں کو پی اے سی میں پیش کیا جائے۔ سیکرٹری کابینہ اخلاق تارڑ نے بھی سی ڈی اے سے متعلق آڈٹ اعتراضات کا دفاع کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ جن لوگوں نے فائل غائب کی ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جائے۔

آڈٹ حکام نے بتایا کہ سنٹورس انتظامیہ نے پلاٹ کی قیمت میں سے دو ارب 65 کروڑ روپے ابھی تک ادا نہیں کئے۔ اگر 2008 ء تک ادائیگی مکمل ہونا تھی لیکن سی ڈی اے نے خلاف قانون مدت میں 2012 ء تک اضافہ کردیا۔ مدت بڑھانے کے باوجود آج تک ادائیگیاں مکمل نہیں کی گئیں۔ پی اے سی نے سنٹورس کی ادائیگیوں کا ریکارڈ طلب کرلیا۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ بلڈنگ پلاننگ کی منظوری کے بغیر کئی سرکاری اور نجی عمارتوں کی تعمیر کی گئی ہے ‘ پٹرولیم ہاؤس ‘ کے آر ایل بلڈنگ‘ فیڈرل فلڈ کمیشن بلڈنگ غیر قانونی طور پر بنی ہیں ‘ پی اے سی نے مذکورہ عمارتوں کیلئے ذمہ داروں سے وصولی کی ہدایت کردی ہے۔

پی اے سی نے ہدایت کی کہ ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں عمارتیں گرا دی جائیں۔ پی اے سی نے سی ڈی اے کو بغیر نیلامی پلاٹ کی الاٹمنٹ فوری روکنے کی ہدایت کی۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ سی ڈی اے نے قواعد کے خلاف کشمیر ہائی وے اور سملی ڈیم پر دو پٹرول پمپس کیلئے جگہ الاٹ کی ہے۔

متعلقہ عنوان :