آرمڈفورسزاہلکاروں کیخلاف ایف آئی آر درج ہوسکتی ہے،اٹارنی جنرل کا سپریم کورٹ میں بیان ،کوئی دوسرے رائے نہیں ہوسکتی ، ایڈووکیٹ جنرل نے اٹارنی جنرل کے بیان کی تائید کردی،اہلکاروں کے خلاف ٹرائل فوجی عدالت یا سول میں عدالت میں چلایا جائیگا ،جسٹس جواد ایس خواجہ کا جواب ،مجسٹریٹ کو اپنا دماغ بھی استعمال کرنا چاہیے، خود کو کمانڈنگ آفیسر کا ماتحت نہیں سمجھنا چاہیے ، ریمارکس ، مجسٹریٹ کی طرف سے فوجی اہلکار کو فوجی حکام کے حوالے کرنے کے قواعد و ضوابط ہونے چاہئیں ، جسٹس گلزار احمد

جمعرات 15 مئی 2014 21:15

آرمڈفورسزاہلکاروں کیخلاف ایف آئی آر درج ہوسکتی ہے،اٹارنی جنرل کا سپریم ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔15مئی۔2014ء) اٹارنی جنرل اسلم بٹ نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ آرمڈ فورسز اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج ہو سکتی ہے۔ جسٹس جواد خواجہ کی سربراہی میں سماعت کرنے والے تین رکنی بنچ نے گزشتہ روز اٹارنی جنرل سے قانونی رائے طلب کی تھی کہ کیا فوجی اہل کاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جاسکتی ہے ۔ جمعرات کو اپنے تحریری جواب میں اٹارنی جنرل سلمان بٹ نے پاکستان آرمی ریگولیشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ مسلح افواج کے اہل کاروں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوسکتی ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل نے تائید کرتے ہوئے کہا کہ اس پر کوئی دوسرے رائے نہیں ہوسکتی۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ سرونگ پرسنلز پر ایف آئی آر ہو سکتی ہے۔تاہم یہ سوال جواب طلب ہے کہ ان اہلکاروں کے خلاف ٹرائل فوجی عدالت میں چلایا جائے گا یا سول میں، عدالت نے فوجی اہل کاروں کے ٹرائل کے بارے میں بھی فوری جواب طلب کیا۔

(جاری ہے)

جسٹس جواد خواجہ نے کہاکہ مجسٹریٹ اگر گرفتار فوجی اہلکار کو فوجی حکام کے حوالے کرئے تو اسے وجوہات بیان کرنی ہونگی۔

مجسٹریٹ کو اپنا دماغ بھی استعمال کرنا چاہیے، اسے خود کو کمانڈنگ آفیسر کا ماتحت نہیں سمجھنا چاہیے مقدمات کمانڈنگ آفیسر کے کہے پر نہیں چلنے چاہئیں ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا لطیف یوسفزئی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اس مقدمے میں ملزم فوجی اہلکار نائب صوبیدار امان اللہ کیخلاف ایف آئی آر درج ہوئی ہے تاہم ابھی تک ان کو حراست میں نہیں لیاگیاانہوں نے کہاکہ ایف آئی آردرج ہونے کے بعد متعلقہ کمانڈنگ آفیسر کی جانب سے ڈپٹی کمشنر ملاکنڈ کو درخواست موصول ہوئی تھی کہ فوجی اہلکار کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلایا جائے گا اسلئے مقدمہ وہاں منتقل کیا جائے جس پر ڈپٹی کمشنر نے 27مارچ کو درخواست پر حکم جاری کرکے مقدمہ فوجی حکام کو منتقل کردیا ہے۔

جسٹس گلزار نے کہاکہ اگرکوئی مجسٹریٹ فوجی اہلکار کا مقدمہ منتقل کرتاہے تو اس کیلئے قواعد ہونے چاہئیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر خود کو کمانڈنٹ کا ماتحت نہ سمجھیں بلکہ وہ اپنا دماغ استعمال کرتے ہوئے قانون کے مطابق میرٹ پرکارروائی کریں۔ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے عدالت کوبتایا کہ میری اطلاع کے مطابق ملزم اہلکار کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ آخری مراحل میں ہے جس میں گواہوں کے بیانات بھی ریکارڈ کرلیے گئے ہیں۔

جسٹس گلزار نے کہاکہ اگر ملزم کو فوجی حکام کے حوالے کرنے کا فیصلہ قانون کے مطابق نہ ہوا تو مقدمے کی ساری کارروائی ختم ہوجائے گی۔ جسٹس جواد نے کہاکہ صوبوں کو اپنے قوانین اور اختیارات کا خیال رکھناچاہیے ابھی تک لاپتہ یاسین شاہ کا کچھ پتہ نہیں چل سکا جس پر ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے استدعا کی کہ اس سلسلے میں پیش رفت کی تحریری رپورٹ جمع کرانے کیلئے ہمیں مہلت دی جائے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل اور ایڈوکیٹ جنرل خیبر پختوانخواہ سے معاونت طلب کر تے ہوئے ان سوالات پر جواب دینے کے لیے کیس کی سماعت دس روز کیلئے ملتوی کر دی۔

متعلقہ عنوان :