وزیراعلیٰ خیبرپختونخوانے فنی تعلیم کو جدید تقاضوں اور مارکیٹ ضروریات سے ہم آہنگ بنانے کیلئے متعدد اقدامات کی منظوری دیدی،ماضی کی 95فیصد تھیوری اور صرف 5فیصد پریکٹیکل کے برعکس آئندہ فنی تربیت تین روز ووکیشنل سنٹر اور تین روز متعلقہ کارخانے میں عملی کام کی صورت میں ہو گی،چاہتے ہیں ہمارے تعلیمی اور تربیتی ادارے اگر اگلے سال عالمی معیار کو نہ چھو لیں تو انہیں کم از کم نجی اداروں کا قومی معیار ْضرور ملے،وزیراعلیٰ کااجلاس سے خطاب

ہفتہ 10 مئی 2014 20:42

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔10مئی۔2014ء) خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے فنی تعلیم کو جدید تقاضوں اور مارکیٹ ضروریات سے ہم آہنگ بنانے کیلئے نظامت فنی تعلیم کی تشکیل نو کے علاوہ ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ ایجنسی (ٹیوٹا)کے ایکٹ میں ترامیم، اسے ایجنسی سے خودمختار اتھارٹی بنانے، اسکے ادارہ جاتی ڈھانچے، فنی تربیت کے نصاب اور درکار فنڈز سمیت کئی اقدامات کی منظوری دی ہے اس سلسلے میں ٹیوٹا بورڈ کا اجلاس وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کی زیر صدارت وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ پشاور میں منعقد ہوا جس میں ٹیوٹا کے چئیرمین انجینئر نعمان وزیر، وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے سرمایہ کاری رفاقت اللہ بابر، چیف سیکرٹری امجد خان، ایڈیشنل چیف سیکرٹری خالد پرویز، سیکرٹری اعلیٰ تعلیم فرح حامد، سیکرٹری قانون محمد عارفین ، سیکرٹری صنعت محمد علی شہزادہ، وائس چانسلر انجینئرنگ یونیورسٹی انجینئر سید امتیاز حسین گیلانی، وائس چانسلر اسلامیہ کالج یونیورسٹی قبلہ ایاز، وائس چانسلر پشاور یونیورسٹی ڈاکٹر رسول جان ، وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری محمد اشفاق خان، وزیراعلیٰ کمپلینٹ سیل کے چئیرمین حاجی دلروز خان اور دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ماضی کی 95فیصد تھیوری اور صرف 5فیصد پریکٹیکل کے برعکس آئندہ فنی تربیت تین روز ووکیشنل سنٹر اور تین روز متعلقہ کارخانے میں عملی کام کی صورت میں ہو گی جبکہ تمام داخلے انہی کارخانوں اور مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے مطابق دئیے جائیں گے تربیتی مراکز میں طلباء و طالبات کی تیار کردہ مصنوعات مارکیٹ میں فروخت کی جائیں گی اور منافع طلبہ و ادارے میں مقررہ شرح سے تقسیم ہوگا فنی تربیت کے اختتام پر فارغ التحصیل طلبہ کیلئے متعلقہ شعبے میں روزگار کی دستیابی یقینی بنائی جائے گی یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ آئندہ تمام سکولوں میں چھٹی جماعت سے آٹھویں تک فنی تربیت کا مضمون بھی لازمی ہو گا جس کیلئے ورکشاپس اور نصاب کی منظوری دی گئی پرویزخٹک نے انکی ہدایات کو عملی جامہ پہناتے ہوئے مختصر عرصے میں واضح پیشرفت پر ٹیوٹا چئیرمین اور انکی ٹیم کی شبانہ روز کوششوں کو سراہا اور یقین دلایا کہ صوبائی حکومت اس اہم ترین مقصد کیلئے بھرپور تعاون کے علاوہ مطلوبہ تمام فنڈز کی فوری فراہمی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے گی انہوں نے کہا کہ آج ہماری فنی تعلیم اور اسناد و ڈگریوں کی کوئی وقعت نہیں کیونکہ اسکے معیار کا کسی کو خیال ہی نہیں آیا ہماری نظر میں اگر آئندہ بھی یہ حال ہو تو اس پر حکومت کے کروڑوں اربوں روپے کا خرچ بیکار ہے اور ایسے فنی اداروں کو چلانے کی بجائے بند کرنا ہی قوم پر احسان ہو گا ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے تعلیمی اور تربیتی ادارے اگر اگلے سال عالمی معیار کو نہ چھو لیں تو انہیں کم از کم نجی اداروں کا قومی معیار ْضرور ملے اور انکی اسناد اور ڈگریوں پر اعتماد پیدا ہو ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ فنی تعلیم پر عوام کی پائی پائی شفاف خرچ ہو اور اس کا بہتر نتیجہ بھی نکلے ہمارے ہنرمندوں کو کارخانے دار ملازمتوں میں ترجیح دیں اسی طرح سمندر پار بالخصوص خلیجی ممالک میں ہمارے ہنرمندوں کی مانگ پیدا ہو اور وہ ہم سے مختلف شعبوں میں تربیت یافتہ افرادی قوت مانگنا شروع کریں تب یہ ہماری حکومت اور عوام کیلئے اطمینان کا دن ہو گا وزیراعلیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت کا منشاء یہ ہے کہ ہم صنعتی ترقی کے اگلے مرحلے میں قدم رکھیں تو کارخانے داروں اور سرمایہ کاروں کو یہاں ہنرمند افرادی قوت کی کھیپ پہلے سے مقامی طور پر تیار ملے اور انہیں اسکی فکر نہ ہو انہوں نے کہا کہ فنی تعلیم میں مزید پیشرفت کیلئے ایئر یونیورسٹی اور ٹیکنکل یونیورسٹی کے ناموں سے دو نئی یونیورسٹیوں کے قیام کی منظوری بھی ہو چکی ہے ان دونوں یونیورسٹیوں کو انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہاکہ اپنی نوعیت کے منفرد ان جامعات کے قیام سے نہ صرف صوبے کے تعلیمی شعبے اور فنی مہارت بلکہ معیشت پر بھی دور رس اثرات مرتب ہوں گے انکی بدولت یہاں ماحولیاتی خوبصورتی اور معاشی خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا خطے میں اعلیٰ فنی تعلیم کو زبردست فروغ ملے گا اور روزگار کے مواقع بڑھیں گے لوگوں خصوصاً نوجوانوں کو روزگار کے نئے مواقع ملیں گے اور یہاں کاروباری اور صنعتی شعبے کو نئی جہت ملے گی اُنہوں نے کہا کہ ماضی میں حکومتی سطح پر قوت فیصلہ کے فقدان اور پالیسیوں کے عدم تسلسل کی وجہ سے صوبے کو تمام شعبوں میں ناقابل تلافی نقصان اُٹھانا پڑا مگر آئندہ ایسا نہیں ہو گا اب جو فیصلے ہونگے اس پر عمل درآمد ہر صورت میں ہو گا۔

متعلقہ عنوان :