حکومت اور طالبان دونوں کو اختیار اپنی مذاکراتی کمیٹیوں سے کو تبدیل کرنے کا اختیار ہے، پروفیسر ابراہیم ،حکومت نے پہلے بھی مذاکراتی کمیٹی کو تبدیل کیا تھا اگر اب بھی چاہے تو کمیٹی تبدیل کر سکتی ہے، براہ راست مذاکرات کے اگلے دور میں دو نوں فریقوں کا قابل قبول جگہ کا تعین ابھی تک نہیں ہو سکا جسکی وجہ سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے میں تاخیر ہوگئی ،میڈیاسے بات چیت

ہفتہ 10 مئی 2014 20:40

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔10مئی۔2014ء) جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر اور طالبان مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا ہے کہ حکومت اور طالبان دونوں کو اختیار ہے کہ اگر وہ اپنی مذاکراتی کمیٹیوں سے مطمئن نہیں تو اُانہیں تبدیل کر دیں حکومت نے پہلے بھی مذاکراتی کمیٹی کو تبدیل کیا تھا اور اگر اب بھی وہ چاہے تو وہ اپنی کمیٹی تبدیل کر سکتی ہے اور اسی طرح طالبان کو بھی یہ اختیار حاصل ہے اور اگر وہ ہماری جگہ کوئی اور کمیٹی بنانا چاہے تو ہمیں اُن کا فیصلہ بخوشی قبول ہوگا ۔

تاہم انہوں نے کہا کہ طالبان نے اُنہیں پیغام دیا ہے کہ وہ اپنی موجودہ مذاکراتی کمیٹی سے پوری طرح مطمئن ہے ۔طالبا ن ، حکومت مذاکرات کے براہ راست مذاکرات کے اگلے دور میں دو نوں فریقوں کو قابل قبول جگہ کا تعین ابھی تک نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے میں تاخیر ہوگئی ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کے روز المرکز اسلامی پشاور میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔

(جاری ہے)

جماعت اسلامی کے میڈیا کے سیکرٹری اطلاعات اسرار اللہ ایڈوکیٹ بھی ان کے ہمراہ تھے ۔ پروفیسر محمد ابراہیم خان نے مزید کہا کہ دس سال سے زائد عرصے سے جاری بد امنی اور کشیدگی کی وجہ سے حکومت اور طالبان کے درمیان بہت دوریاں پیدا ہو گئیں ہے ۔اور دونوں فریقوں میں بد اعتمادی کی فضاء کو دور کرنے میں وقت لگے گا تاہم انہوں نے کہا کے مذاکرات کے علاوہ اور کوئی راستہ ہے ہی نہیں ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کا دوسرا دور اب تک شروع ہوجانا چاہیے تھا ۔ تاہم انہوں نے کہا کہ جو ہی دونوں فریقین مذاکرات کے لئے کسی مقام پر متفق ہو جائیں گے ۔مذاکراتی عمل دوبارہ شروع ہو جائے گا ۔