طالبان کے فوج اور پولیس پر حملوں سے ملک دشمن قوتوں کو فائدہ ہوگا،پروفیسرابراہیم،طالبان جنگ بندی میں توسیع کریں اور حملے بند کردیں،فوج میڈیا پر تحفظات سے اجتناب کرے اور اگر وہ مزاکراتی عمل کا حصہ نہیں بنتی تو پھر حکومت پر اعتماد کرے، اب تک حقیقی مذاکرات شروع نہیں ہوئے،مذاکرتی عمل میں جو مشکلات ہیں ،خاتمے کیلئے حکومت فوج اورطالبان سب کو اخلاص سے آگے آنا ہوگا ،دونوں کمیٹیوں کی فوجی حکام سے ملاقات کروائی جائے جس میں فوج کا نقطہ نظرواضح طور پر ہمیں معلوم ہوناچاہیے،پشاورمیں تقریب سے خطاب

اتوار 27 اپریل 2014 21:54

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔27اپریل۔2014ء) جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کے امیر اور طالبان رابطہ کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ طالبان کے فوج اور پولیس پر حملوں سے ملک دشمن قوتوں کو فائدہ ہوگا اس لئے وہ جنگ بندی میں توسیع کریں اور حملے بند کردیں فوج میڈیا پر تحفظات سے اجتناب کرے اور اگر وہ مزاکراتی عمل کا حصہ نہیں بنتی تو پھر حکومت پر اعتماد کرے۔

پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ اعتماد سازی کے لئے بے گناہ افراد کو اٹھانے کی بجائے مغویوں اور قیدیوں کی رہائی کو ممکن بنایا جائے۔ مذاکرات کی راہ میں کچھ مشکلات حائل ہیں۔ مذاکرات کا اصل مرحل شروع ہی نہیں ہوا۔ مذاکرات صرف جماعت اسلامی کا نہیں، بلکہ اے پی سی میں تمام جماعتوں کا مطالبہ تھا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے مرکز اسلامی میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا ،ان کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے بعد ایساراستہ اختیار ہوا کہ ملک میں خانہ جنگی شروع ہوئی اور دس بارہ سال سے ہم خانہ جنگی کاشکار ہے اور ان حالات سے نکلنے کیلئے جماعت اسلامی نے شروع دن سے اس بات کااعلان کیاتھاکہ فوج اور قوم اگرآپس میں لڑیں تو یہ نہ قوم کے حق میں ہے اور نہ ہی فوج کے حق میں ہے، مشرف پرائی جنگ کو یہاں لائے تھے عوام کو اس جنگ سے نکالنے کیلئے صرف مذاکرات ہی حل ہے جو کہ تمام سیاسی جماعتوں کا مطالبہ بھی تھا ، آئین سے انکار کرنیوالوں میں سیاسی رہنماء اور سابق جنرل بھی ہیں، آئین کے اندر جواسلام موجود ہے کسی حکمران نے اس اسلام کو نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس میں رکاوٹ بنتے رہے اگر آئین میں درج اسلام نافذ کیاجائے تو مجھے یقین ہے کہ طالبان اس آئین کو تسلیم کرنے کوتیار ہونگے لیکن آئین کے ساتھ مشرف نے جو کیاہے کیاوہ اس کاحقدار نہیں کہ عدالت کے اندراسے قرارواقعی سزا ملے، آج وہ مختلف بیماریوں کا بہانہ بناکرجگہیں تبدیل کررہاہے لیکن ہم یہ واضح کردیں کہ مشرف کوملک سے نکالاگیا تو اس کی ذمہ داری وفاقی حکومت پرہوگی اورہماراہاتھ وزیراعظم کے گریبان پرپڑیگا اورجومشرف عدالت کو کٹہرے میں کھڑاکرینگے ہم اس کے ساتھ کھڑے ہونگے،اداروں کا وقار مجرموں کی پش پناہی سے کبھی قائم نہیں ہوسکتا جنرل راحیل شریف اپنے ادارے کا وقار بحال کرناچاہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ مجرم کی پشت پناہی نہ کریں ،ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے بارے میں ہر عدالت میں باتیں ہورہی ہیں جوکہ اداروں کی توہین ہے ، ہم طالبان کو بھی کہتے ہیں کہ آپ فوج اور پولیس پرحملہ کرینگے تو اس کو امریکہ اور بھارت کو فائدہ ہوگا فوج جنریلوں سے بھی کہتے ہیں کہ تمھارے اندر امریکہ کاجوخوف ہے یہ نکالیں اللہ کا خوف دل میں بیٹھادیجئے ،انہوں نے کہاکہ وہ جنگ بندی میں توسیع کرے اپنے اپنے اداروں پرحملہ نہ کرے فوج سے بھی کہتے ہیں کہ جیٹ طیارے قبائلی عوام کے خلاف نہیں ہونے چاہیے ۔

(جاری ہے)

فوجی آپریشن ترک کرناچاہیے مذاکراتی عمل کو اخلاص سے آگے بڑھاناچاہیے طالبان نے یقین دہانی کرائی کہ وہ سنجیدگی سے مذاکرات عمل بڑھاناچاہتے ہیں انہوں نے مطالبہ کیاکہ چیف آف آرمی سٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ ہماری ملاقات کروائی جائے لیکن ملاقات تو سرکاری کمیٹی کی بھی نہیں کروائی جارہی۔ انہوں نے مطالبہ کیاکہ دونوں کمیٹیوں کی فوجی حکام سے کرائی جائے فوج کا نکتہ نظرواضح طور پر ہمیں معلوم ہوناچاہیے فوج کو مذاکرات عمل کاحصہ بنناچاہیے ابھی تک کوئی قیدی نہیں ہوا 19قیدیوں کے بارے میں بھی ہمیں معلوم نہیں حکومت نے13تاریخ کی یقین دہانی کرائی ہے کہ فوج نے حکومت کے حوالے قیدی کئے ہیں جو مناسب وقت پررہاکئے جائینگے ابھی قیدی رہانہیں کہ فوج نے تحفظات ظاہرکئے میں کہوں گاکہ یاتوفوج کو مذاکرات کے عمل کابراہ راست حصہ بنناچاہیے اوراگروہ مذاکرات کے عمل میں نہیں آناچاہتے توپھرحکومت کو مکمل طور پر اعتماد کرناہوگا۔

متعلقہ عنوان :