بلوچستان اسمبلی نے تین قرار دادیں متفقہ طور پر منظور کرلیں ،کوئٹہ میں مزید تحصیلوں کے قیام کے متعلق قرار دادمسترد، فیسوں کی عدم ادائیگی کے باعث بچے سکول سے فارغ کردیئے گئے ہیں ، قیمتی وقت ضائع ہورہا ہے،نصر اللہ زیرے ، کوئٹہ میں پانی کی قلت پیدا ہوگئی ہے ،زیادہ سے زیادہ ڈیم بناکرپانی ذخیرہ کیاجائے،حسن بانو،لاہور سے ملتان موٹر وے شاہراہ میں توسیع کرکے اسے ڈیرہ غازی خان براستہ لورالائی تا کوئٹہ تعمیر کیا جائے،حاجی گل محمددمڑ

ہفتہ 26 اپریل 2014 19:54

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔26اپریل۔2014ء) بلوچستان اسمبلی نے تین قرار دادیں متفقہ طور پر منظور کرلیں جبکہ کوئٹہ میں مزید تحصیلوں کے قیام کے متعلق قرار دادمنظور نہ ہوسکی بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ہفتہ کو ڈپٹی سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کی صدارت میں ہوا اجلاس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی نصر اللہ زیرے نے ایوان میں قرار داد پیش کرتے ہوئے کہاکہ وزیراعظم سکالر شپ پروگرام کے تحت صوبے کے منتخب طلباء جو پنجاب سندھ اور خیبر پختونخوا کے مختلف سکولز اور کالجز میں زیر تعلیم ہیں فیسوں کی عدم ادائیگی کے باعث مسائل کا شکار رہتے ہیں حالیہ سب سے بڑا مسئلہ چاند باغ سکول مریدکے پنجاب میں زیر تعلیم طلبا کا ہے جو فیسوں کی عدم ادائیگی کے باعث سکول سے فارغ کردیئے گئے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف ان کا قیمتی وقت ضائع ہورہا ہے بلکہ انہیں تعلیمی سلسلے کو مزید جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے انہوں نے کہاکہ سابق دور میں وزیراعظم سکالر شپ پروگرام کے تحت مختلف تعلیمی اداروں میں طلباء کو سکالر شپس دیئے گئے ان تعلیمی اداروں میں طلباء کے سالانہ اخراجات تقریباً 6 لاکھ روپے تک ہے لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے فیسوں کی ادائیگی میں تاخیر یا عدم ادائیگی کی وجہ سے طلباء کو فارغ کیا جارہا ہے چاند باغ سکول میں ہمارے تقریباً 30 کے قریب طلباء زیر تعلیم ہیں جبکہ ملک کے دوسرے تعلیمی اداروں میں بھی طلباء سکالر شپ کے تحت تعلیم حاصل کررہے ہیں ان کو سکالر شپ کی بروقت ادائیگی کو یقینی بنایا جائے تاکہ وہ اپنی تعلیم حاصل کرسکیں صوبائی وزیر شیخ جعفر خان مندوخیل نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہاکہ یہ اہم قرار داد ہے سکالر شپ پر غریب طلباء کو تعلیم حاصل کرنے مواقع مل رہے ہیں ہمیں غیر ضروری سکولوں کے قیام کی بجائے 4 سے 5 سو طلباء کو سکالر شپ پر ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھنے کیلئے بھیجے جائیں وفاقی حکومت کیساتھ صوبائی حکومت بھی فنڈز فراہم کرے تاکہ کسی بھی بچے کی تعلیم متاثر نہ ہو نیشنل پارٹی کی ڈاکٹر شمع اسحاق نے کہا کہ مختلف تعلیمی اداروں میں بچوں کو سکالر شپس دیئے جاتے ہیں بولان میڈیکل کالج میں مختلف عرب ممالک کے طلباء تعلیم حاصل کرتے ہیں جنہیں تعلیم  رہائش اور کتابوں سمیت دیگر اخراجات کیلئے سکالر شپ دیا جاتا ہے جبکہ ملک کے دوسرے صوبوں میں بھی اعلیٰ تعلیم کیلئے سکالر شپ دیئے جاتے ہیں بلوچستان کے بچے جو مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں ان کیلئے فوراً سکالر شپ کو یقینی بنایا جائے تاکہ ان کی تعلیم متاثر نہ ہو جمعیت علماء اسلام کے حاجی گل محمد دمڑ نے کہاکہ وزیراعظم سکالر شپ کے تحت صوبے کے غریب طلباء ملک کے مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں مگر اب سکالر شپ کی عدم ادائیگی کے باعث ان کو سکولوں سے فارغ کیا جارہا ہے یہ ایک اہم مسئلہ ہے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا جائے اور صوبائی حکومت بھی کچھ فنڈز جاری کرے صوبائی وزیر پی اینڈ ڈی ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے یقین دلایا کہ صوبائی حکومت جہاں تک ممکن ہوا اپنا کردار ادا کرے گی محکمہ تعلیم کو ساتھ لیکر کام کرینگے اور اس بات کو یقینی بنائینگے کہ طلباء اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں صوبائی وزیر اطلاعات قانون و پارلیمانی امور عبدالرحیم زیارتوال نے کہاکہ یہ ایک اہم نوعیت کا معاملہ ہے انہوں نے نصر اللہ زیرے کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ وہ ان طلباء کا ریکارڈ لیکر آئینگے جنہیں سکول سے نکال دیا گیا ہے تاکہ وزیراعلیٰ کو پیش کرکے ان سے اس سلسلے میں بات کی جاسکے وفاق سے بھی اس سلسلے میں بات کرینگے انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہاکہ صوبائی حکومت تعلیمی اداروں کے قیام اور انہیں اپ گریڈ کرنے کیلئے کام کررہی ہے مگر یہ طلباء جو سکالر شپ پر مختلف تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں ان کا مسئلہ اہم ہے چاند باغ سکول میں ہمارے صوبے کے 30 طلباء زیر تعلیم ہیں ارکان اسمبلی کے پاس سکالر شپ کے حوالے سے فنڈز موجود ہیں ہر ایم پی اے ایک ایک بچے کو تعلیمی اخراجات کیلئے فنڈز دے سکتا ہے ولیم برکت نے کہاکہ گھر سے باہر تعلیم حاصل کرنیوالے طلباء کو سب سے اہم مسئلہ سکول اور ہاسٹل کے اخراجات ہوتے ہیں ان کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے انہوں نے کہاکہ خضدار یونیورسٹی میں اقلیتی طلباء کیلئے سکالر شپ ہے مگر بی ایم سی میں نہیں یہاں بھی اس کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے بعد ازاں ایوان نے قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلی اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کی شاہدہ رؤف اور حسن بانو کی مشترکہ قرار داد ایوان میں پیش کرتے ہوئے حسن بانو نے کہاکہ ضلع کوئٹہ اور اس کے مضافات میں پانی کی سطح روز بروز تشویشناک حد تک نیچے گر رہی ہے جس کی وجہ سے کوئٹہ میں پانی کی قلت پیدا ہوگئی ہے اور زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گر چکی ہے اس لئے ضروری ہے کہ کوئٹہ اور اس مضافات میں جو ندیاں گزر رہی ہیں ان پر بڑے بڑے ڈیمز بنائے جائیں جیسا کہ اغبرگ ندی پر ایک بڑا ڈیم بنایا گیا جو کامیابی سے ہمکنار ہوا اور اب اغبرگ کے زمیندار اس ڈیم کے پانی سے استفادہ کررہے ہیں انہوں نے کہاکہ اسی طرح اغبرگ کلی رندوزئی کرک کچلاک یارو پشین سرانان شادیزئی سیدان کلی عبدالباری اجرم سرہ غڑگئی چشمہ اچوزئی بلیلی کلی مہتر زئی کے مقام پر بڑے بڑے ڈیمز بنائے جائیں تاکہ پانی کے ضیاع کو روکا جاسکے قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے حسن بانو نے کہاکہ پانی اہم مسئلہ ہے اور پانی ذخیرہ کرنے کیلئے ڈیمز کے قیام کو یقینی بنایا جائے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصر اللہ زیرے نے کہاکہ کوئٹہ کی آبادی اس وقت 30 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے اور زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے نیچے گر رہی ہے میرے حلقے میں پانی کی سطح ایک ہزار فٹ تک نیچے گر گئی ہے اگر ہم نے پانی کے مسئلے کو حل نہ کیا تو مستقبل میں صورتحال انتہائی خطرناک ہوگی میں اپنے حلقے میں دو ڈیمز تعمیر کرنے کے منصوبے بنا چکا ہوں انہوں نے کہاکہ ماضی میں کوئٹہ گریٹر واٹر سپلائی کے تحت مانگی اور حلک دو ڈیمز بنائے جانے تھے جن کیلئے 8 ارب روپے جاری ہوئے مگر ڈیمز بنانے کی بجائے اس سے صرف پائپ لائنیں بچھا دی گئیں جن سے کوئی فائدہ نہیں ہوا جمعیت علماء اسلام کے رہنماء سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہاکہ کوئٹہ میں پانی کی زیر زمین سطح تیزی سے نیچے گر رہی ہے دوسری جانب صوبے میں پانی کا بحران بھی ہے بجلی دستیاب نہیں ڈیمز بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں اور وفاق کی جانب سے سو ڈیمز بنانے کیلئے فنڈز کے حصول کو یقینی بنایا جائے نیشنل پارٹی کی ڈاکٹر شمع اسحاق نے کہاکہ انسانی زندگی کیلئے پانی انتہائی ضروری ہے پانی کی زیر زمین سطح کو گرنے سے بچانے کیلئے ڈیمز کی تعمیر انتہائی ضروری ہے کوئٹہ سمیت صوبے کے تمام علاقوں میں ضرورت کے مطابق ڈیمز بنائے جائیں صوبائی وزیر پی ایچ ای نواب ایاز خان جوگیزئی نے کہاکہ میں نے سات ماہ قبل پی ایچ ای اور واسا کے محکموں کا چارج سنبھالا واسا کے محکمے کو کئی ایک امراض لاحق ہیں یہ کبھی کیو ڈی اے کے حوالے کیا جاتا رہا تو کبھی اس کا وزیر مقرر کیا جاتا رہا واسا کو پانچ سو ملازمین سے چلایا جاسکتا ہے مگر آنکھیں بند کرکے بھرتیاں کی گئیں اور اب وہاں ملازمین کی تعداد ضرورت سے کہیں زیادہ ہے 9 سب ڈویژن ہیں تمام ملازمین کو جاکر چیک کیا جائیگا اور گھوسٹ ملازمین ختم کردیئے جائینگے انہوں نے کہاکہ پی ایچ ای کے 30 اضلاع کے ایکس ای این کو کوئٹہ بلایا اور ان کیساتھ اجلاس ہوا صورتحال یہ ہے کہ گذشتہ چار پانچ سال سے خراب ٹیوب ویلوں کی بجلی کے کنکشن منقطع نہیں کرائے گئے جس کی وجہ سے بجلی کے بھاری بل آرہے ہیں دوسری جانب بجلی بمشکل تین سے چار گھنٹے ہوتی ہے مگر بل چوبیس گھنٹوں کے حساب سے دیئے جارہے ہیں تمام صورتحال کو سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں انہوں نے کہاکہ ٹیوب ویلوں کیلئے ماضی میں جرمن کمپنی کی مشینری خریدی گئی خراب ہونے پر جب مشینیں نکالی جاتی ہیں تو وہ چائنا کی بنی ہوتی ہیں اور جب مشینری چیک کرنے کی کوشش کی گئی تو بلڈوزر خراب کردیئے گئے انہوں نے کہاکہ کوئٹہ شہر میں سینکڑوں ٹیوب ویل لگائے گئے اور کہا جارہا ہے کہ ہم ان کو چلائیں جبکہ لگائے جانیوالے ٹیوب ویلوں کی نصف سے بھی زیادہ خشک ہے انہوں نے کہاکہ ماضی میں پانی کی قلت کو دور کرنے کیلئے اربوں روپے آئے مگر کام غلط جانب سے شروع کیا گیا ڈیمز کی تعمیر کی بجائے پہلے پائپ لائن بچھا دی گئی اور اس میں بھی خوردبرد کا سلسلہ جاری رہا انہوں نے کہاکہ اب کوئٹہ شہر میں نکاسی آب کے منصوبے پر کام ہورہا ہے یہ منصوبہ بھی سابق دور میں شروع ہوا منصوبہ مکمل ہونے قبل یہ کچرے سے بھر چکا ہے اب اس کی صفائی کیلئے بھی فنڈز چاہئیں ہونگے انہوں نے کہاکہ ہم کوشش کررہے ہیں ڈیمز بنائے جائیں تاکہ مسئلہ حل ہوسکے اجلاس میں یہ قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے حاجی گل محمد دمڑ نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے یہاں کے عوام کی ملک بھر میں کاروبار کے سلسلے میں آمدورفت جاری رہتی ہے لیکن پنجاب جانے کیلئے صرف ایک روٹ ہے اس وقت پنجاب میں لاہور ملتان موٹر وے کی تعمیر کا منصوبہ زیر غور ہے موجودہ صورتحال کے پیش نظر لوگ ٹرینوں میں سفر کرنے سے گریزاں ہے انہوں نے کہاکہ یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ لاہور سے ملتان موٹر وے شاہراہ میں توسیع کرکے اسے ڈیرہ غازی خان براستہ لورالائی تا کوئٹہ تعمیر کیا جائے انہوں نے کہاکہ موٹر وے بننے سے قبل لورالائی سے فیصل آباد کا سفر 12 گھنٹے کا تھا جو اب انتہائی کم ہوگیا ہے اسلام آباد سے لاہور اور پشاور تک موٹر وے بن چکا ہے انہوں نے کہاکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ براستہ لورالائی کوئٹہ تک توسیع دی جائے جمعیت علماء اسلام کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہاکہ یہ اہم قرار داد ہے اس وقت امن و امان کی صورتحال بھی سب کے سامنے ہے جس کی وجہ سے بولان کی بجائے لورالائی کے راستے پنجاب جانے کو ترجیح دیتے ہیں صوبائی حکومت موٹر وے کو بلوچستان تک لانے کیلئے وفاق سے بات کرے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے عبیداللہ بابت نے کہاکہ موٹر وے کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں موٹر وے کے بننے سے عوام اور زمینداروں کو فائدہ ہوگا مسلم لیگ (ق) کے شیخ جعفر مندوخیل نے کہاکہ یہ اہم مسئلہ ہے حکومت اور اپوزیشن دونوں ملکر اس قرار داد پر عملدرآمد کی کوشش کریں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصر اللہ زیرے نے بھی قرار داد کی حمایت کی اور کہاکہ سڑک نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے عوام خصوصاً زمینداروں کو نقصانات کا سامنا ہے صوبائی وزیر پی اینڈ ڈی ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہاکہ میں یقین دلاتا ہوں کہ ژوب میر علی خیل روڈ کا کام جلد شروع ہوجائیگا انہوں نے کہاکہ وزیراعظم کے دورہ گوادر کے موقع پر جب موٹر وے کے حوالے سے بریفنگ دی گئی تو اس وقت بھی صوبائی حکومت کا موقف تھا کہ گوادر خضدار مستونگ کوئٹہ لورالائی ٹانک تک موٹر وے بنایا جائے اس وقت پورے صوبے کو فائدہ ہوگا اجلاس میں اتفاق رائے سے یہ قرار داد منظور کرلی گئی اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کی شاہدہ رؤف اور حسن بانو کی قرار داد ایوان میں پیش کرتے ہوئے شاہدہ رؤف نے کہاکہ کوئٹہ بلوچستان کا دارالحکومت ہونے کیساتھ دیگر اضلاع کے مقابلے میں اس کی آبادی بھی زیادہ ہے مگر دیگر اضلاع میں دو سے تین تحصیلیں ہیں مگر کوئٹہ میں ایک تحصیل ہے جس سے عوام کو انتظامی معاملات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لہٰذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ کوئٹہ کو کچلاک اغبرگ سریاب اور سرہ غڑگئی پر مشتمل نئی تحصیلوں کا قیام عمل میں لایا جائے جمعیت علماء اسلام کے حاجی گل محمد دمڑ نے کہاکہ آبادی کے لحاظ کوئٹہ صوبہ کا سب سے بڑا شہر ہے چھوٹے چھوٹے اضلاع میں بھی تین تین چار چار تحصیلیں ہیں مگر کوئٹہ میں صرف ایک ہی تحصیل ہے سریاب سرہ غڑگئی اغبرگ اور کچلاک کو تحصیل کا درجہ ملنے سے عوام کے مسائل حل ہوسکیں گے صوبائی وزیر شیخ جعفر خان مندوخیل نے کہاکہ تحصیل اور ضلع عوام کی ضرورت کو مد نظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں حکومت نئے اضلاع اور تحصیلیں بنانے پر غور کررہی ہے کوئٹہ میں دیکھیں گے کہ اگر تحصیل کی ضرورت ہے یا پھر تحصیل کی یونٹ بڑھانے اور سٹاف میں اضافے سمیت جو ضرورت ہوئی اسے پورا کرینگے شاہدہ رؤف نے کہاکہ یہ سیاسی مسئلہ نہیں ہے تحصیلیں بننے سے عوام کے مسائل حل ہونگے سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہاکہ اب جبکہ صوبائی وزیر خود کہہ رہے ہیں کہ اس سلسلے میں صوبائی حکومت کام کررہی ہے تو اس قرار داد کو منظور کرلیا جائے اور پھر اپنی پالیسی کے مطابق کام کرے نصر اللہ زیرے نے کہاکہ متعلقہ وزیر کی یقین دہانی کے بعد محرکین اپنی قرار داد پر زور نہ دیں ڈپٹی سپیکر کی جانب سے رائے شماری کرانے پر قرار داد منظور نہ ہوسکی ۔

(جاری ہے)

سپیکر نے اجلاس بروز پیر 28 اپریل شام 4 بجے تک ملتوی کردیا۔