سندھ اسمبلی میں تحفظ پاکستان آرڈی ننس کو مسترد کرنے بارے پیش کردہ قرار داد منظور نہ ہو سکی،قرار داد اتفاق رائے سے سندھ اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و پارلیمانی امور کے سپرد کردی گئی ، کمیٹی ہفتے میں قرار داد کا نیا مسودہ تیار کریگی، آرڈی ننس میں بہت سے نقائص ہیں ،پاکستان کے موجودہ حالات میں اس طرح کے سخت قوانین کا ہونا ضروری ہے،پیپلزپارٹی کے وزراء کی تقاریر

منگل 22 اپریل 2014 21:14

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔22اپریل۔2014ء) سندھ اسمبلی میں منگل کو تحفظ پاکستان آرڈی ننس ( پی پی او ) کے خلاف پاکستان پیپلزپارٹی ، متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) اور پاکستان تحریک انصاف کے ارکان نے کھل کر تقریریں کیں لیکن اس آرڈی ننس کو مسترد کرنے کے حوالے سے پیش کردہ قرار داد منظور نہیں ہو سکی ۔ یہ قرار داد اتفاق رائے سے سندھ اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و پارلیمانی امور کے سپرد کردی گئی ۔

یہ کمیٹی ایک ہفتے میں قرار داد کا نیا مسودہ تیار کرے گی ، جس میں آرڈی ننس کو واپس لینے کی بات نہیں ہو گی بلکہ آرڈی ننس میں ترامیم کے حوالے سے تجاویز دی جائیں گی ۔ پیپلزپارٹی کے وزراء نے اپنی تقاریر میں کہا کہ اس آرڈی ننس میں بہت سے نقائص ہیں لیکن پاکستان کے موجودہ حالات میں اس طرح کے سخت قوانین کا ہونا ضروری ہے ۔

(جاری ہے)

موجودہ قوانین سے دہشت گردی پر کنٹرول کرنا ممکن نہیں ۔

منگل کو پرائیویٹ ممبرز ڈے تھا ۔ ایم کیو ایم کے رکن خواجہ اظہار الحسن کی نجی قرار داد اجلاس کی کارروائی کے ایجنڈے میں شامل تھی ۔ اسی طرح کی قرار داد منگل 15 اپریل کو بھی ایجنڈے میں شامل تھی لیکن ایم کیو ایم کی طرف سے لاپتہ کارکنوں کے مسئلے پر احتجاج اور شور شرابے کی وجہ سے اجلاس ملتوی کردیا گیا تھا اور اس قرار داد کی باری نہیں آئی تھی ۔

اس مرتبہ قرار داد کی باری آئی ۔ خواجہ اظہار الحسن نے قرار داد پیش کی ، جس میں کہا گیا کہ ” یہ ایوان تحفظ پاکستان آرڈی ننس کی سخت مذمت اور اسے مسترد کرتا ہے ، جو نہ صرف پاکستان کے دستور کی خلاف ورزی ہے بلکہ عدالتی نظام اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی طاقت کی بھی تنسیخ کرتا ہے ۔ یہ ایوان حکومت سندھ سے سفارش کرتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے تاکہ وفاقی حکومت اس آمرانہ ، غیر آئینی اور غیر جمہوری آرڈی ننس کو واپس لے کیونکہ یہ آرڈی ننس انسانی حقوق کا تحفظ نہیں کرتا ہے ۔

“ خواجہ اظہار الحسن نے اس آرڈی ننس کے خلاف زبردست دلائل دیئے اور کہا کہ یہ ایک کالا قانون ہے ، جس کے تحت کسی بھی شخص کو 90 دن تک بغیر وجہ بتائے زیر حراست رکھا جا سکتا ہے ۔ صرف شک کی بنیاد پر قانون نافذ کرنے والوں کے اہلکار کسی کو بھی گولی مار سکتے ہیں ۔ جرم ثابت ہوئے بغیر کسی بھی جائیداد ضبط کی جا سکتی اور اس کی شہریت بھی منسوخ کی جا سکتی ہے ۔

ملزمان سپریم کورٹ کے سوا کسی اور عدالت سے رجوع نہیں کر سکتے ۔ یہ آرڈی ننس انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔ اس سے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہے ۔ ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر سید سردار احمد نے کہا کہ قانون لاقانونیت کے خاتمے کے لیے بنائے جاتے ہیں لیکن اس قانون سے لاقانونیت بڑھے گی ۔ ایم کیو ایم کی خاتون رکن بلقیس مختار نے کہا کہ یہ آرڈی ننس صرف ایم کیو ایم کے خلاف استعمال ہو رہا ہے ، اس کا اطلاق وہاں ہونا چاہئے ، جہاں طالبان کو پالا جا رہا ہے ۔

ایم کیو ایم کی خاتون رکن ارم عظیم فاروق نے کہا کہ یہ آرڈی ننس آئین کو توڑنے کے مترادف ہے اور انسانیت کے خلاف جرم ہے ۔ اپوزیشن لیڈر سید فیصل علی سبزواری نے کہا کہ یہ قرار داد لانے کا مقصد یہ ہے کہ صوبہ سندھ کے عوام کے جذبات سے وقافی حکومت کو آگاہ کیا جائے ۔ اس طرح کے کالے قوانین بنانے کے بجائے اداروں کو مضبوط کیا جائے ۔ جب یہ آرڈی ننس نہیں تھا تو بھی رینجرز اور پولیس والے بے گناہ انسانوں کو گولی مار دیتے تھے ۔

اب اس آرڈی ننس کے تحت انہیں گولی مارنے کی اجازت مل گئی تو کیا ہو گا ؟ ایم کیو ایم کے ارکان کامران اختر ، ظفر کمالی اور وقار حسین شاہ نے بھی اس آرڈی ننس کی مخالفت میں دلائل دیئے ۔پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر ثمر علی خان نے کہا کہ یہ ایک ڈریکولا قانون ہے ۔ اس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں ۔ پہلے سے موجود قوانین پر عمل درآمد کیا جائے تو دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر عرفان اللہ خان مروت نے کہا کہ یہ قانون کسی ایک سیاسی جماعت کے خلاف نہیں ہے ۔ یہ دہشت گردی کو روکنے کے لیے ہے ۔ ملک کے دیگر حصوں میں بھی دہشت گردی ہو رہی ہے لیکن کراچی میں دہشت گردی میں ہلاک ہونے والوں کے اعداد و شمار جمع کیے جائیں تو کراچی سب سے آگے ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے بعد امریکا میں ہوم لینڈ سکیورٹی کا ادارہ بنا ۔

اگر تحفظ پاکستان آرڈی ننس میں کوئی خرابیاں ہیں تو ان کی نشاندہی کی جائے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے اس آرڈی ننس کا خیر مقدم کیا تھا اور کہا تھا کہ ایسے قانون کی ضرورت ہے ۔ وزیر ورک اینڈ سروسز میر ہزار خان بجارانی نے کہا کہ خصوصی قوانین کو سب سے زیادہ پیپلز پارٹی نے بھگتا ہے ۔ آج ملک کے حالات سب کے سامنے ہیں ۔ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے ۔

کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے ۔ ہمیں عجلت میں قرار داد منظور نہیں کرنی چاہئے ۔ یہ قرار داد قائمہ کمیٹی کے سپرد کی جائے ، جو قرار داد کا نیا مسودہ تیار کرکے دے ۔ سینئر وزیر نثار احمد کھوڑو نے کہا کہ قوانین کا غلط استعمال روکنے کے لیے تجاویز دی جائیں اور ایک نئی قرار داد پیش کی جائے ۔ وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کہا کہ پیپلز پارٹی تحفظ پاکستان آرڈی ننس کے خلاف ہے ۔

یہ غیر انسانی قانون ہے ۔ پاکستان میں طویل آمریت کی وجہ سے دہشت گرد مضبوط ہوئے ۔ اب انہیں کنٹرول کرنے کے لیے ایسے قوانین کی ضرورت ہے ، موجودہ قوانین سے دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی ۔ طویل بحث و مباحثہ کے بعد اتفاق رائے سے یہ قرار داد قائمہ کمیٹی برائے قانون و پارلیمانی امور کے سپرد کردی گئی ۔ دریں اثناء یہ معلوم ہوا ہے کہ قائمہ کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو طلب کرلیا گیا ہے ۔

متعلقہ عنوان :