ماضی میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو تباہ کیا گیا، ضرورت سے زیادہ لوگوں کو ادارے میں بھرتی کیا گیا، شرجیل انعام میمن ،بہت سے لوگ ڈیوٹیوں پر نہیں آتے ہیں، کسی اور جگہ کام کرتے ہیں، کچھ ملازمین تو ملک سے باہر بھی چلے گئے لیکن تنخواہیں لے رہے ہیں، ڈیوٹی پر نہ آنیوالے واٹر بورڈ کے ملازمین کو نکالنے کیلئے سندھ اسمبلی کے ارکان پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے، سندھ اسمبلی میں بیان

پیر 21 اپریل 2014 20:09

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔21اپریل۔2014ء) سندھ کے وزیر بلدیات و اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ ماضی میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو تباہ کیا گیا۔ ضرورت سے زیادہ لوگوں کو اس ادارے میں بھرتی کیا گیا۔ ان میں سے بہت سے لوگ ڈیوٹیوں پر نہیں آتے ہیں، وہ کسی اور جگہ کام کرتے ہیں۔ کچھ ملازمین تو ملک سے باہر بھی چلے گئے ہیں لیکن تنخواہیں واٹر بورڈ سے لے رہے ہیں۔

ڈیوٹی پر نہ آنے والے واٹر بورڈ کے ملازمین کو نکالنے کے لئے سندھ اسمبلی کے ارکان پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے۔ وہ پیر کو سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے رکن کامران اختر کی توجہ دلاؤ نوٹس پر بیان دے رہے تھے۔ کامران اختر نے کہا کہ کراچی کے ضلع غربی اور وسطی میں خاص طور پر پانی کی قلت ہے۔ کراچی شہر پر ہائیڈرنٹ مافیا کی حکمرانی ہے۔

(جاری ہے)

شہری مہنگا پانی خریدنے پر مجوبر ہیں۔

واٹر بورڈ کو اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ حکومت لوگوں کو بنیادی سہولیتں فراہم کرنے کے لئے اقدامات کرے۔ انہوں نے ہائیڈرنٹ مافیا کی فہرست بھی وزیر بلدیات کو فراہم کی۔ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ ہمارے پاس اس سے زیادہ بڑی فہرست ہے۔ میں نے غیر قانونی ہائیڈرنٹ مسمار کئے لیکن معزز عدالت کے حکم پر وہ دوبارہ کھول دئیے گئے۔ میں کیا کرسکتا ہوں؟؟؟ انہوں نے کہا کہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس ویسے تو پورے کراچی میں ہیں۔

لیکن منگھوپیر کے علاقے میں زیادہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے معاملے پر بحث کے لئے سندھ اسمبلی میں تحریک التواء لائی جائے تاکہ میں بتا سکوں کہ اس ادارے کو کس طرح تباہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے چیف سیکرٹری، آئی جی سندھ اور دیگر حکام کو خطوط لکھا کہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف آپریشن میں ہمیں فورس درکار ہے۔

کیونکہ بعض علاقے بہت حساس ہیں۔ انہوں نے کہا کہ واٹر بورڈ کی بلنگ 60 سے 70 کروڑ ہوتی ہے۔ لیکن وصول 40 کروڑ روپے ہوتی ہے۔لوگ بل ادا نہیں کرتے۔ اس رقم میں سے 30 کروڑ روپے تنخواہوں کی مد خرچ ہوجاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ واٹر بورڈ میں اضافی اور ضرورت کے بغیر بھرتیاں کرکے اس ادارے کو تباہ کیا گیا، جو لوگ ڈیوٹی کہی اور کرتے ہیں اور تنخواہیں ہم سے لیتے ہیں۔

انہیں نکالنے کے لئے سندھ اسمبلی کی کمیٹی بنائی جائے۔ اسپیکر آغا سراج درانی نے کہا کہ کسی کو نوکری سے نکالنا ہماری حکومت کی پالیسی نہیں ہے۔ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ یہ بھی ہماری حکومت کی پالیسی نہیں ہے کہ لوگ کام کہی اور کریں اور تنخواہیں حکومت سے لیں۔ اس دوران ایم کیو ایم کے ارکان کھڑے ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ وزیر بلدیات توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب دینے کی بجائے دوسری باتیں کررہے ہیں۔

ایوان میں شور شرابہ شروع ہوگیا۔ وزیر اطلاعات و بلدیات شرجیل انعام میمن نے کہا کہ میں نے کسی کا نام نہیں لیا ہے۔ اگر دیگر ارکان مداخلت کریں گے تو میں توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب نہیں دونگا۔ انہوں نے کہا کہ حب ڈیم خشک ہونے کی وجہ سے پانی کی قلت ہے۔ میری یہ ذمہ داری ہے کہ میں افسروں سے ایمانداری کے ساتھ کام لوں لیکن چیلنجز اور زمینی حقائق کو سامنے رکھا جائے۔

ایم کیو ایم کے رکن شیخ عبداللہ کے توجہ دلاؤ نوٹس پر شرجیل انعام میمن نے کہا کہ سرجانی ٹاؤن، بلدیہ عظمیٰ کے (کے ایم سی) کے کنٹرول میں ہے۔ ایم کیو ایم کے رکن سید خالد احمد کے توجہ دلاؤ نوٹس پر وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر سکندر میندھرو نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد پولیس میں آؤٹ آف ٹرن ترقیوں کے احکامات واپس لے لئے گئے تھے۔ اب وہاں کوئی آؤٹ آف ٹرن ترقی نہیں ہے۔

متعلقہ عنوان :