جج آئین وقانون اوراپنی دانش کے مطابق فیصلے کرتے ہیں ، پالیسیوں کا پابند نہیں بنایا جاسکتا ، چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی ،لاپتہ افراد کے مقدمات پر نہ کوئی پالیسی بنائی گئی ہے اور نہ ہی معاملہ کبھی فل کورٹ اجلاس میں زیر غور لایا گیا ، صحافیوں سے گفتگو ،ئین کے مطابق ریاست فوری سستا اور جلد انصاف مہیا کرے ، جسٹس جوادایس خواجہ کی سربراہی میں پینل کی سفارشات ،ججز مختصر فیصلہ جات سادہ انگریزی میں تحریر کرنے کی کوشش کریں ،سفارشات

ہفتہ 19 اپریل 2014 22:52

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔19اپریل۔2014ء) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا ہے کہ جج آئین وقانون اوراپنی دانش کے مطابق فیصلے کرتے ہیں ، پالیسیوں کا پابند نہیں بنایا جاسکتا ،لاپتہ افراد کے مقدمات پر نہ کوئی پالیسی بنائی گئی ہے اور نہ ہی معاملہ کبھی فل کورٹ اجلاس میں زیر غور لایا گیانجی ٹی وی کے مطابق میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہاکہ عدلیہ مقدمات کے فیصلوں کیلئے پالیسیاں نہیں بناتی بلکہ ہر کیس کا فیصلہ آئین و قانون کی روشنی میں کیا جاتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا ہر جج بذات خود ایک سپریم کورٹ ہوتا ہے اور اپنے فیصلوں میں آزاد ہوتا ہے تاہم ججوں کو پالیسیوں کا پابند نہیں بنایاجاسکتا وہ آزاد منش پر آئین وقانون اور اپنی دانش کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

لاپتہ افراد کیس سے متعلق پوچھے گئے سوال پر چیف جسٹس نے کہاکہ لاپتہ افراد کے مقدمات پر نہ کوئی پالیسی بنائی گئی ہے اور نہ ہی یہ معاملہ کبھی فل کورٹ اجلاس میں زیر غور لایا گیا بلکہ ہر کیس کو اس کی میرٹ اور آئین وقانون کے مطابق دیکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے۔

دوسری جانب انٹرنیشنل جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان تصدق حسین جیلانی نے کہاکہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد میں اضافہ ہوا ہے اوراب ہمارا یہ فرض ہے کہ بروقت انصاف کی فراہمی یقینی بنائیں۔ انہوں نے کہاکہ ماتحت عدالتیں بھی شہری حقوق کیلئے کام کریں تاکہ ہم عوام کے بنیادی حقوق کو مزید یقینی بناسکیں۔دریں اثناء انٹر نیشنل جوڈیشل کانفرنس میں جسٹس جوادایس خواجہ کی سربراہی میں گروپ نے سفارشات پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کے مطابق ریاست فوری سستا اور جلد انصاف مہیا کرے ، دیکھنا یہ ہے کہ آیا ریاست اس تقاضے کو کس حد تک پورا کررہی ہے سفارشات کے مطابق اس موضوع پر جناب دولت آبادی ،جسٹس جیفری چارلز ووس ،امریت سنگھ چنڈیوک ،اعجاز شفیع گیلانی ،فیصل صدیقی نے اپنے مقالے پڑھے جبکہ پینل کی صدارت کے فرائض صدور جناب مقبول باقر چیف جسٹس عدالتِ عالیہ سندھ اور جناب قاضی فائض عیسیٰ چیف جسٹس عدالتِ عالیہ بلوچستان نے سر انجام دئیے۔

سفارشا ت کے مطابق ایک سرسری جائزہ لینے سے بھی یہ بات عیاں ہے کہ مقدمات کے فیصلے ہونے میں تاخیر غیر تسلی بخش ہے۔ سفارشات میں کہا گیا کہ ہمارے عدالتی نظام کے دائرہ کار میں بد انتظامی کی وجوہات کا جائزہ لینے کیلئے وسیع مشاہداتی مطالعہ کی ضرورت ہے اور اس مطالعے کا محور درج ذیل مسائل کی تشخیص ہونی چاہیے ،تاخیر کی بنیادی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہاکہ تمام عدالتی مدارج پر عدالتوں کے گنجائش، ڈھانچے اور افرادی قوت کے ذرائع ،عدالتی طریقہٴ کار کی جائزیت کے متعلق موجودہ عوامی تاثر ،جج صاحبان اور عدالتی عملے کیلئے ایک مثالی ملازمتی ڈھانچہ ،عدالتی طریقہٴ کار سے وابستہ ایک متوسط سائل کی ہرجے کی ادائیگی کی استطاعت ،انتظامی اتھارٹیز کی لغزشوں کی مئوثر انداز میں نگرانی کیلئے ضلعی عدلیہ کو مناسب اختیارات کا تفویض کیا جانا ،اعلیٰ پیمانے پر انصاف تک رسائی کیلئے مئوثر قانونی، عدالتی اور انتظامی اقدامات کرنا ،مذکورہ مطالعے کی بنیاد پر متعلقہ قواعد اور بار کی اقدار میں مئوثر اصلاحات رائج کی جانی چاہئیں تا کہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ قانونی مدد ہر ضرورت مند سائل تک پہنچ رہی ہے۔

ان اقدامات میں وکلاء کو لائسنس کے اجراء کے طریقہٴ کار کا از سرِ نو مرتب کیا جانا بھی ضروری ہے تا کہ لازمی فلاحی اقدامات کو فروغ دیا جا سکے سفارشات کے مطابق جج صاحبان، وکلاء اور مقننہ سب کو مشترکہ طور پر ایسے مستحکم اقدامات اُٹھانے چاہیے جن کی بناء پر تمام قوانین اور فیصلے یا تو اُردو زبان میں تحریر کئے جائیں یا پھر اُن کا مابعد ترجمہ اُردو میں کیا جائے اور یہ فیصلے عام عوام کی پہنچ میں ہوں یا پھر کم از کم ہر شائع شدہ فیصلے کا خلاصہ اُردو زبان میں شائع کیا جائے اور عوام کی اُس تک رسائی بھی ممکن بنائی جائے اور جب تک کہ تمام فیصلہ جات کا اُردو ترجمہ کرنے کا حتمی مقصد حاصل نہیں ہوتا ججوں کو چاہیے کہ مختصر فیصلہ جات سادہ انگریزی میں تحریر کرنے کی کوشش کریں۔