مذاکرات کے علاوہ جو بھی راستہ اختیار کیا گیا اسے عوامی حمایت حاصل نہیں ہوگی ‘ سراج الحق،حکومت مذاکرات کے معاملے میں دو قدم آگے بڑھنے کی بجائے چار قدم پیچھے ہٹ رہی ہے جس سے اعتماد میں کمی آرہی ہے ،مذاکرات دو شریفوں کا مسئلہ نہیں بلکہ ملکی سا لمیت اور اٹھارہ کروڑ عوام کے مستقبل کا مسئلہ ہے ،ایک پیج پر رہتے ہوئے مذاکرات کو کامیاب بناناچاہیے ،دونوں کے نقطہ نظر میں کوئی اختلاف بھی ہو ، تو اسے بھلا کر مذاکرات کے مسئلہ پر ایک موقف پر اکٹھے ہو جا ناچاہیے‘ اجتماع سے خطاب /پریس کانفرنس

جمعہ 18 اپریل 2014 18:39

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔18اپریل۔2014ء) امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہاہے کہ اگر ایٹم بم کسی کو تحفظ دے سکتا تو روس ٹکڑے ٹکڑے نہ ہوتا،تمام سیاسی جماعتیں سیاست اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کرقوم کو امن کی طرف لے جائیں ، حکومت کے بقیہ چار سالوں میں تمام سیاسی جماعتوں کا قوم کی خدمت کے ایجنڈے پرمتحد ہونا ضروری ہے ،امن قائم کیے بغیر معیشت بہتر ہو گی نہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے چنگل سے نجات ملے گی، مذاکرات دو شریفوں کا مسئلہ نہیں بلکہ ملکی سا لمیت اور اٹھارہ کروڑ عوام کے مستقبل کا مسئلہ ہے ، دونوں شریفوں کو ایک پیج پر رہتے ہوئے مذاکرات کو کامیاب بناناچاہیے اور اگر دونوں کے نقطہ نظر میں کوئی اختلاف بھی ہو ، تو اسے بھلا کر مذاکرات کے مسئلہ پر ایک موقف پر اکٹھے ہو جا ناچاہیے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جامع مسجد منصورہ میں نماز جمعہ کے اجتماع اور منصورہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سراج الحق نے کہا کہ حکومت سنجیدگی دکھائے اور طالبان کے مطالبات تسلیم کرلے ۔ ہم نے پرائی جنگ میں کود کر پچاس ہزار جانیں قربان کیں اور ایک سو ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان برداشت کیا لیکن طالبان کے مطالبے پر تین سو لوگوں کو رہا کرنے کے لیے تیار نہیں ۔

اگر مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے اور بدامنی جاری رہی تو مزید جانوں کے ضیاع کا خطرہ ہے ۔ حکومت سنجیدگی دکھائے تو طالبان کو مزید جنگ بندی پر راضی کیا جاسکتا ہے ۔سراج الحق نے کہاکہ طالبان نے حکومتی مطالبات تسلیم کر کے امن پسندی کا ثبوت دیا اب گیند حکومتی کورٹ میں ہے ۔ مذاکرات کو صرف وقت گزارنے کا ذریعہ نہ بنایا جائے ۔ مذاکرات کی کامیابی امن و امان کے قیام اور ملکی سلامتی وخود مختاری کے لیے ناگزیر ہے ۔

جماعت اسلامی نے حکومت اور طالبان کے درمیان رابطہ بحال کر کے اپنے حصے کا کام کر دیا ،مذاکرات کو آگے بڑھانا اور کامیابی سے ہمکنار کرنا حکومت کاکام ہے ۔سراج الحق نے کہاکہ حکومت اگر مزید لاشیں گرانا اور ملک میں بدامنی اور دہشتگردی کو پھیلانا نہیں چاہتی تو اسے طالبان کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے ۔ طالبان کا صرف یہی مطالبہ ہے کہ حکومت اور طالبان میں مذاکرات کے لیے ایک ایسا ” پیس زون“ ہو جہاں کسی حملے کا خطرہ نہ ہو اور تین سو کے قریب ان لوگوں کو رہا کردیا جائے جن کا عسکری کاروائیوں سے کوئی تعلق نہیں ۔

انہوں نے کہاکہ میرے خیال میں ملک میں مستقل قیام امن اور دہشتگردی کے عفریت پر قابو پانے کے لیے ان مطالبات کو تسلیم کرلینے میں کوئی قباحت نہیں ۔ انہوں نے کہاکہ جب سے مذاکرات کا آغاز ہواہے ، قوم نے سکھ کا سانس لیا ہے اور پورے ملک خاص طو ر خیبر پختونخوا میں لوگ آزادی سے اپنے کاروباری ، تعلیم اور صحت کے اداروں میں مصروف عمل نظر آتے ہیں ۔

کھیل کے میدانوں کی رونقیں بحال ہو گئی ہیں۔ انہو ں نے کہاکہ مذاکرات کے علاوہ جو بھی راستہ اختیار کیا گیا ، اسے عوامی حمایت حاصل نہیں ہوگی ۔انہوں نے کہا کہ ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ طالبان ایک قدم آگے بڑھتے تو حکومت دو آگے بڑھاتی لیکن موجودہ حالات میں حکومت دو قدم آگے بڑھنے کی بجائے چار قدم پیچھے ہٹتی ہے جس سے اعتماد میں کمی آرہی ہے ۔

ایک سوال کے جواب میں سراج الحق نے کہاکہ ڈالر کی قیمت میں کمی کا غریب عوام کو بھی فائدہ ہوناچاہیے ۔ ڈالر میں مسلسل کمی آ رہی ہے مگر آٹے اور دال کی قیمتوں میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ حکمران طبقہ اور اشرافیہ اٹھارہ کروڑ عوام کو برابر کے حقوق دینے پر تیار نہیں امیر او ر غریب کے درمیان بہت بڑی خلیج حائل کر دی گئی ہے ۔ جن تعلیمی اداروں میں اشرافیہ کے بچے پڑھتے ہیں کسی غریب کا بچہ وہاں تعلیم حاصل کرنے اور جن ہسپتالوں میں امیر کا علاج ہوتاہے وہاں کوئی غریب بیمار علاج کرانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

انہوں نے کہاکہ جس طرح بھارت میں برہمن شودروں کو زندگی کا حق نہیں دیتا اسی طرح کا رویہ پاکستان کی اشرافیہ نے یہاں کے غریبوں کے ساتھ اپنا رکھاہے ۔ انہوں نے کہاکہ جب تک کرپشن کے پروردہ اور لوٹ کھسوٹ کر کے قومی دولت کو بیرونی بنکوں میں جمع کروانے والوں کے پیٹ پھاڑ کر عوام کا پیسہ نہیں نکلوایا جاتا ، ملک سے کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔

مشرف کے متعلق ایک سوال کے جواب میں سراج الحق نے کہاکہ مشرف کا معاملہ عدالت میں ہے جس پر پوری قوم اور دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں ۔ ریاست کی کامیابی اس میں ہے کہ آئین کی بالادستی قائم ہو ۔ آئین میں عدلیہ اور تمام اداروں کے حقوق موجود ہیں ان پرسختی سے عملدرآمد کیا جائے ۔ قانون کی نظر میں امیر اور غریب سب برابر ہیں اور سب کو آئین کی ایک ہی چھڑی سے ہانکا جاناچاہیے ۔ایک دوسرے سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ شفاف اور غیر جانبدارانتخابات کے لیے ضروری ہے کہ بھارت کی طرز پر ایک آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن قائم کیاجائے جو کسی سیاسی وابستگی ، بیوروکریسی اور دیگر اداروں کے دباؤ کو خاطر میں نہ لائے اور قوم کو اپنے نمائندوں کے انتخاب کا آزادانہ حق دے.

متعلقہ عنوان :