وزارت تعلیم کی تیزی سے بڑھتی ہوئی نادہندگی کے باوجود40 فیصد امتحانی مراکز اب بھی لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ ہیں، کے الیکٹرک

جمعہ 4 اپریل 2014 21:43

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔4اپریل۔2014ء) کے۔الیکٹرک نے ایک پریس بیان میں کہا ہے کہ وزارتِ تعلیم پربجلی کے بلوں کی مد میں واجبات 3 کروڑ 63 لاکھ روپے سے تجاوز کرچکے ہیں اور اس کے باوجود ادارے نے 40 فیصد امتحانی مراکز کو لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ رکھا ہوا ہے۔ اس حقیقت کے مد نظر کہ یہ امتحانی مراکز شہر کی پوری حدود میں پھیلے ہوئے ہیں ،لہٰذا100 فیصد امتحانی مراکز کا بجلی کی لوڈ شیڈنگ سیمستثنیٰ عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔

مزید برآں، چونکہ 60 فیصد امتحانی مراکز ایسے علاقوں میں قائم ہیں جہاں فیڈرز پر بجلی کی چوری/ نقصانات کی شرح بہت زیادہ ہے جس کی اہم وجہ وہاں بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی اور غیر قانونی طریقے سے بجلی کا حصول، اور کچھ صورتوں میں تو دونوں ہی باتیں ہیں ۔

(جاری ہے)

درج بالا مذکورہ رکاوٹوں کے باوجود ، کے ای چونکہ ان طالبعلموں کی ضروریات سے آگاہ ہے جو ان امتحانی مراکز میں اپنا میٹرک کا امتحان دے رہے ہیں، لہٰذا 40 فیصد امتحانی مراکز میں امتحانات کے اوقات میں پہلے سے طے شدہ مقررہ لوڈ شیڈنگ بھی نہیں کی جاتی۔

کے ای نے تعلیمی حکام پر زور دیا کہ وہ اپنے بجلی کے طویل عرصے کے واجبات کی فوری طور پر ادائیگی کریں اور امتحانی امیدواروں سے متعلقہ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ کے ای نے اس جانب اشارہ کیا کہ شہری اور صوبائی حکومتوں کے 1400سے زائد تعلیمی اداروں کے بجلی کے کنکشنز پر 3کروڑ 63 لاکھ روپے سے زائد کے واجبات ہیں۔ اتنی بڑی نادہندگی کے ساتھ، یہ بات انتہائی غیر حقیقی ہے کہ ان محکموں کی جانب سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ رکھے جانے کا مطالبہ کیا جائے۔

تاہم ، ایک ذمہ دار ادارہ ہونے کے باعث کے ای نے خود قدم آگے بڑھایا اور ان امتحانی مراکز میں جہاں تک ممکن ہو سکتا ہے بجلی کی ترسیل کو یقینی بنایا ہے۔کے ای نے کہا کہ تعلیمی اداروں کی جانب سے بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی اپنے ان طالبعلموں سے بھی انتہائی ناانصافی ہے جو مشکل صورتحال میں امتحانات دے رہے ہیں۔ کے ای نے کہا کہ ریاستی انتظامات کے تحت چلنے والے ان محکموں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے غیر ادا شدہ بلوں کی ادائیگی کرنے کی ضرورت ہے۔ کے ای طلباء کے نقطہء نظر سے صورتحال کو سمجھتی ہے، لیکن اس صورتحال کی مکمل ذمہ داری صرف ان تعلیمی اداروں اور صوبائی و وفاقی حکومتوں پر ہے۔

متعلقہ عنوان :