ملک میں امن و استحکام اور مذاکرات کی کامیابی کا انحصار آزادانہ خارجہ پالیسی پر ہے ، سید منورحسن،ملٹری آپریشن کو دعوت دینا ملک کو تباہ کرنے اور پنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے ،کراچی آپریشن کا سمیٹک آپریشن اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے ،کراچی پریس کلب میں میٹ دی پریس سے خطاب

منگل 25 مارچ 2014 21:17

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔25مارچ۔2014ء) جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سید منورحسن نے کہا ہے کہ ملک میں امن و استحکام اور مذاکرات کی کامیابی کا انحصار امریکی مداخلت سے پاک اور خود مختارانہ خارجہ پالیسی پر ہے ۔ ملک میں دہشتگردی ، بدامنی اور انارکی پھیلاکر پاکستان کو اپنے ایٹمی پروگرام سے محروم کرنے کی سا زش کی جارہی ہے ۔مذکرات نے ہمیشہ اسلحہ کی سیاست کو شکست دی ہے ۔

ملٹری آپریشن کو دعوت دینا ملک کو تباہ کرنے اور اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔کراچی آپریشن کا سمیٹک آپریشن اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے ۔بھارت پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کا مرتکب ہورہا ہے ۔بھا رت سے دوستی کرنے سے قبل اپنے دوست کو دشمنی ترک کرنے کا مشورہ دیا جائے ،سعودی عرب کے شاہ کو ذاتی طور پر ایک خط لکھا ہے ۔

(جاری ہے)

اس کی رسید ملنے کے بعد اسے پریس کے لیے جاری کردیا جائے گا ،جسقم کے رہنماؤ ں کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ قابل مذمت ہے ۔ایم کیو ایم ،پیپلز پارٹی اور اے این پی جب حکومت میں تھیں تو انھوں نے ملک میں کوئی فوجی آپریشن کیو ں نہیں کیا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کے روز کراچی پریس کلب میں میٹ دی پریس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن،سیکریٹری عبد الوہاب،نائب امیر مظفر احمد ہاشمی ،سیکریٹری اطلاعات زاہد عسکری،کراچی پریس کلب کے صدر امتیاز فاران ،سیکریٹری عامر لطیف اور دیگر بھی موجود تھے۔

سید منور حسن نے کہاکہ مذاکرات کے لیے بنائی گئی دونوں کمیٹیوں کی ورکنگ سے دوریاں کم کرنے میں مدد ملی ہے اور یہ با ت سامنے آئی ہے کہ دونوں طرف کسی حد تک اعتماد کی فضا موجود ہے ۔دنیا کے بڑے بڑے مسائل ہمیشہ مذاکرات سے ہی حل ہوئے ہیں ۔ملٹری آپریشن کا تجربہ کبھی کامیاب نہیں ہوا ۔اس سے فوج اور عوام کے درمیان فاصلے اور نفرتیں بڑھتی ہیں،بلوچستان میں آج پانچواں فوجی آپریشن جاری ہے لیکن محرومی کی طویل رات کو مزید طویل کیا گیا ہے،سپریم کورٹ میں بار بار یہ بات سامنے آئی ہے اور چیف جسٹس کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ لا پتا افراد کی بازیابی کے لیے جب بھی کوششیں کی گئی ہیں اور آگے بڑھا گیا ہے اس میں ایجنسیوں کا نام آتا ہے،بلوچستان کے لوگوں کی جرات و بہادری قابل مبارکباد ہے وہ تحمل کا گوہ گراں بنے ہوئے ہیں یہ لوگ بلوچستان سے پیدل چل کر اسلام آباد تک پہنچ گئے ہیں،انہوں نے کہا کہ موسم کی خرابی کی وجہ سے اگر مذاکرات آج ملتوی ہوگئے ہیں تو وہ کل ہونے چاہییں اور مذاکرات کے حق میں یہ بات جاری رہنی چاہیے ۔

سید منورحسن نے کہا کہ پارلیمنٹ میں دو مرتبہ یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کی جا چکی ہے کہ اپنی خارجہ پالیسی کو از سرنوع تشکیل دیا جائے اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ قومی خارجہ پالیسی کے بارے میں سوالیہ نشان موجود ہے اس وجہ سے سیاسی کارکن اور قیادت میں ایک ری ایکشن بھی موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ ڈیڑھ ارب ڈالر کی آمد سوالیہ نشان ہے اور یہ بات واضح ہے کہ مانگے کی معیشت سے حالات بہتر نہیں ہو سکتے،اور ملک کے اندر کوئی معاشی سرگرمیاں موجود نہیں ہیں،اسحاق ڈار صاحب معاشی میدان کے ماہر نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں آپریشن کی کامیابی کے بارے میں تو کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ڈی جی رینجرز کا کہنا ہے کہ شہر میں ایک نہیں کئی لیاری موجود ہیں اور انھیں لوگوں کو پکڑنے کا تو اختیار ہے لیکن ان کو چھوڑنے کا اختیار کسی اور کے پاس ہے۔اب پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کر کے آپریشن کو کامیاب بنانا چاہتی ہے،،ایم کیو ایم اقتدار سے کبھی دور نہیں رہ سکتی۔

سید منورحسن نے کہا کہ کشمیر کے بارے میں ہمارا موقف صرف جنرل مشرف کے علاوہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادی ملنا چاہیے۔مسئلہ کشمیر میں کسی اور کو مداخلت کی دعوت دینا ہے تو وہ اس لیے دی جائے کہ کشمیریوں کو ان کا حق دلایا جائے۔امریکا نے تو آج تک پاکستان کی کبھی حمایت نہیں کی ہے بلکہ اس نے ہمیشہ بھارت ہی کو شہہ دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری گو امریکا گو کی تحریک برسوں پرانی تحریک ہے اور چین کی کمیونسٹ پارٹی کی دعوت پر ہمارا چین کا دورہ تو بعد کی بات ہے۔جماعت اسلامی نے گو امریکا گو تحریک سے ملک کی دانش و بینش کو مخاطب کیا ہے اور اس ایشو پر عوام کو جمع کیا ہے۔سید منورحسن نے کہا کہ افغانستان میں امریکا ،نیٹواور اتحادیوں کو روس سے زیادہ بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

دنیا کی 60فیصد فوج گزشتہ بارہ سال سے وہاں موجود ہے اور اپنی ساری ترقی اور جدید ہتھیاروں کے باوجود اب وہ وہاں سے نکلنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مغربی دنیا نے یہ پروپیگنڈہ کیا ہے اسلامی تحریکوں کے اندر جمہوری اور سیاسی سوچ نہیں ہے لیکن جن اسلامی تحریکوں نے سیاسی طریقے سے خود کو منوایا تو ان پر پہلے انتہا پسندی،بنیاد پرستی اور پھر دہشت گردی کا الزام لگایا گیا اور اب مغربی دنیا اسلامی تحریکوں کو تشدد کی طرف دھکیلنا چاہتی ہے لیکن اسلامی تحریکوں نے بر ملا اس بات کا اعلان کیا ہے وہ اپنے اپنے ممالک کے آئین کے اندر رہتے ہوئے عوام کی حمایت سے حالات بدلنے کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

مصر میں اخوان المسلمون نے 3سال میں 5پانچ مرتبہ انتخابات جیت کر اپنی عوامی حمایت کا لوہا منوایا ہے۔سید منورحسن نے کہا کہ مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں امن وامان اور دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے صوبائی حکومتوں کو اعتماد میں لے۔