سندھ اسمبلی میں تھر کی صورت حال پر وزیر پارلیمانی امور کی پیش کردہ تحریک پر بحث ، اپوزیشن ارکان کی تنقید ،حکومت تھر کے لوگوں کو بھکاری بنانے کی بجائے تھر کی ترقی کے لیے منصوبہ بندی کرے، اپوزیشن ، ہم تھر کے ایشو پر سیاست نہیں کرنا چاہتے نہ ہی کریں گے ، ہم نے وزیر اعلیٰ سندھ کی زبانی سنا ہے تھر کے معاملے میں کوتاہی ہوئی ہے، اسمبلی میں اظہار خیال

منگل 25 مارچ 2014 21:06

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔25مارچ۔2014ء) سندھ اسمبلی میں منگل کو تھر کی صورت حال پر وزیر پارلیمانی امور کی پیش کردہ تحریک پر بحث ہوئی، جس میں اپوزیشن کے بعض ارکان نے حکومت کی کارکردگی پر تنقید کی لیکن ایسی دھواں دھار بحث نہیں ہوئی، جس کی توقع کی جارہی تھی۔ اپوزیشن ارکان نے حکومت پر زور دیا کہ وہ تھر کے لوگوں کو بھکاری بنانے کی بجائے تھر کی ترقی کے لیے منصوبہ بندی کرے اور ہر دو تین سال بعد وہاں خشک سالی اور قحط سے نمٹنے کے لئے مستقل اقدامات کرے۔

اپوزیشن لیڈر فیصل علی سبزواری نے کہا کہ ہم تھر کے ایشو پر سیاست نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی کریں گے ۔ ہم نے وزیر اعلیٰ سندھ کی زبانی سنا ہے کہ تھر کے معاملے میں کوتاہی ہوئی ہے ۔ ہم تو یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا کوتاہی ہوئی ہے اور کس کے خلاف ایکشن ہوا ہے ۔

(جاری ہے)

وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن کے بقول میڈیا نے ” اوور پلے “ کیا ہے تو یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ میڈیا نے اپنی آزادی کا زیادہ فائدہ اٹھایا ہے یا حقیقت بیان کی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ میں نے مٹھی اور دیگر متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا ہے ۔ وہاں صورت حال ویسی نہیں ہے ، جیسی حکومت بتا رہی ہے ۔ صورت حال زیادہ خراب ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تھر کے لوگوں کی بہتری کے لیے حکومت جو اقدامات کرنا چاہے ، ہم اس کے ساتھ ہیں لیکن ایک پالیسی ہونا چاہئے ۔ گندم کی تقسیم کا مسئلہ کیوں پیدا ہوا اور اس حوالے سے گورننس کا سوال کیوں اٹھایا گیا ۔

انہوں نے کہا کہ محکمہ صحت کے ان افسروں اور ڈاکٹروں کا احتساب ہونا چاہے ، جن کی وہاں ذمہ داریاں تھیں ۔ انہوں نے کہا کہ تھر کے کوئلے پر ہونے والا کام خوش آئند ہے لیکن وہاں کی بھیل برادری کے کسی ایک شخص کو تپے دار کی نوکری بھی نہیں دی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہاں مقامی حکومتیں ہوتیں یا بلدیاتی نظام کام کر رہا ہوتا تو یہ صورت حال پیدا نہ ہوتی ۔

صبح 9 بجے سے شام 4 بجے تک کام کرنے والی بیورو کریسی سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اس طرح کی آفات سے نمٹ سکے اور نہ ہی سارا معاملہ ان پر چھوڑا جا سکتا ہے ۔ ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر سید سردار احمد نے کہا کہ کوئی سازش نہیں ہوئی ہے بلکہ بیوروکریسی نے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی ہے۔ بیوروکریسی نے احتیاطی اقدامات بھی نہیں کئے تھے۔ اس وقت بھی امدادی کارروائیوں کی مانیٹرنگ نہیں ہورہی۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر عرفان اللہ خان مروت نے کہا کہ اگر تھر میں کہی بھی کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو ایوان کو بتایا جائے کہ کس نے کوتاہی کی اور اس کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سید حفیظ الدین ایڈوکیٹ نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق تھرپارکر پاکستان میں سب سے زیادہ ”فوڈ ان سکیور“ ضلع ہے۔

تھر کے لوگوں کو پانی کی فراہمی کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ تھر میں کوئی سازش نہیں ہورہی بلکہ حکومت کی نااہلی ہے۔ ایم کیو ایم کے رکن وقار حسین شاہ نے کہا کہ تھر اور دیگر صحرائی علاقوں میں مسلسل قحط کی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔ اس سے نمٹنے کے لئے حکومت کو مستقل اقدامات کرنا چاہیئے۔ تھر کے لوگوں کا بھی کراچی کے لوگوں کی طرح برابر کا حق ہے۔

تحریک انصاف کے خرم شیر زمان نے کہا کہ گندم بروقت تقسیم نہ کرنے پر حکومت نے کیا ایکشن لیا۔ اس بارے میں حکومت بتائے۔ چھاچھرو کی اسپتالوں میں ڈاکٹر اور نرسز نہیں تھی۔ حکومت اس طرف بھی توجہ دے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے وہاں جاکر دیکھا کہ صورت حال کو جس طرح بھیانک بنا کر میڈیا پر پیش کیا گیا صورت حال ویسی نہیں ہے۔ وہاں غربت زیادہ ہے۔ اس میں کمی کے لئے اقدامات ہونے چاہیئے۔

ایم کیو ایم کے اقلیتی رکن پونجو مل بھیل نے کہا کہ ہردو تین سال بعد خشک سالی اور قحط کی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔ انگریزوں کے زمانے سے ان علاقوں کو آفت زدہ قرار دیا جاتا ہے۔ لوگوں کو سبسڈیز اور کم نرخوں پر اشیاء فراہم کی جاتی ہے۔ اس مرتبہ سستی گندم 5 ماہ تاخیر سے دی گئی۔ یہ ایک کوتاہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رکن ڈاکٹر کھٹو مل جیون نے کہا کہ صورت حال کا پتہ چلتے ہی حکومت سندھ نے فوری اقدامات کئے۔

میں بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا شکر گذار ہوں کہ جنہوں نے وہاں امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کی۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کی اموات کے مختلف اسباب ہیں۔ حکومت سندھ نے وہاں کی اسپتالوں میں ماہرین امراض اطفال، دیگر شعبوں کے ڈاکٹرز اور دوائیں ہنگامی طور پر روانہ کیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت سے جو امداد موصول ہوئی وہ سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر غلام ارباب رحیم نے صرف اپنے قبیلے میں تقسیم کی۔

ایم کیو ایم کے رکن اشفاق احمد منگی نے کہا کہ میڈیا میں خبریں آنے کے بعد ہمارے قائد الطاف حسین کی ہدایت پر ایم کیو ایم کی امدادی ٹیمیں فوراً روانہ ہوگئی اور وہ مختلف علاقوں میں لوگوں کی خدمت کررہی ہے۔ حکومت وہاں بہت اقدامات کررہی ہے۔ لیکن معصوم بچوں کی ہلاکتوں کی خبریں اس وقت بھی آرہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہان کے لوگوں کو بھکاری نہ بنایا جائے بلکہ ان کی ترقی کے لئے مستقل اقدامات کئے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ تھر کے منتخب نمائندوں پر مشتمل ایک ریلیف کمیٹی بنائی جائے، جو امدادی کاموں کی نگرانی کرے۔ مسلم لیگ (فنکشنل) کے پارلیمانی لیڈر نند کمار نے کہا کہ حکومت کہتی ہے کہ تھر کی صورت حال میں اس کا کوئی قصور نہیں پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قصور کس کا ہے۔ تھر کے لوگوں کا مسئلہ مستقیل بنیادوں پر حل کیوں نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ تھر کا بنیادی مسئلہ پانی کا ہے۔

اگر وہاں ایک نہر بنا دی جائے تو تھر کا 90 فیصد مسئلہ حل ہوجائے گا۔ تھری لوگوں کو بھکاری نہ بنایا جائے، ان کے علاقوں کو ترقی دی جائے۔وزیر زکواة و عشر دوست علی راہیموں نے کہا کہ 15 سال پہلے وہ والا تھر اب نہیں ہے۔ وہاں کافی ترقی ہوچکی ہے۔ تھر کے لوگوں کی نقل مکانی کا تاثر بھی درست نہیں۔ وہاں بچوں کے اموات کی شرح اتنی ہے، جتنی پاکستان کے دیگر اضلاع میں ہے۔

گذشتہ 5 سالوں کے دوران سڑکیں بنائی گئیں، بجلی پہنچائی گئی، ہزاروں لوگوں کو روزگار فراہم کیا گیا۔ موجودہ صورت حال میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے غیر معمولی کام کیا ہے۔ امداد 1998 کی مردم شماری کی بنیاد پر نہیں بلکہ 2011 کی آبادی کی بنیاد پر دی جارہی ہے۔ تھر میں 600 آر او پلانٹس لگائے جارہے ہیں۔ حکومت سندھ نے فیصلہ کیا ہے کہ دو ماہ تک تھر کے لوگوں کو مفت گندم فراہم کی جائے گی۔

مسلم لیگ (ن) کے سید اعجاز علی شاہ شیرازی نے کہا کہ تھر کے لوگوں کا جو حال ہے، وہی ٹھٹھہ اور سجاول کے لوگوں کا حال ہے۔ کوہستان میں بھی بارشیں نہیں ہوئی ہیں۔ سب لوگوں کی مدد کی جائے۔ایم کیو ایم کے خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ پوری دنیا پر یہ واضح ہوگیا ہے تھر کی صورت حال حکومت کی غفلت اور نااہلی کا نتیجہ ہے۔ میڈیا کو پہلے خبر ہوئی۔ ہمیں ایسی منصوبہ بندی کرنا چایئے کہ ایسے سانحات دوبارہ رونما نہ ہوں۔

پیپلز پارٹی کے سید مردان علی شاہ نے کہا کہ عمر کوٹ ضلع میں ایک بھی انسان یا جانور کی موت نہیں ہوئی۔ تھر کی صورت حال کو زیادہ اچھالا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت بلاامتیاز لوگوں کی خدمت کررہی ہے۔ مسلم لیگ (فنکشنل) کے جام مدد علی نے کہا کہ تھر مٹھی نہیں ہے۔ دیہی علاقوں کو بہت نظر اندازکیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امداد کی منصفانہ تقسیم ہونی چاہیے۔

اس حوالے سے بہت شکایات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھکاری بنانے کی بجائے اس مسئلے کا مستقل حل نکالا جائے۔ انہوں نے کہا کہ جو ڈاکٹر وہاں ڈیوٹی نہیں کرتے انہیں برطرف کیا جائے۔ اس بات کی انکوائری کی جائے کہ پانی کے نئے آر او پلانٹس کیوں کام نہیں کررہے۔ تحریک پر بحث مکمل ہونے کے بعد اسپیکر نے اجلاس جمعہ کی صبح تک ملتوی کردیا۔