دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے بھائی چارے کو عام کرنے کی ضرورت ہے،میر ہزار خان بجارانی،سندھ نے برصغیر کی تاریخ میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے، سندھی قوم کی بہادری ماقبل تاریخ سے مشہور ہے ،صوبائی وزیر ورکس اینڈ سروسز

پیر 24 مارچ 2014 19:47

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔24مارچ۔2014ء) سندھ کے وزیر برائے ورکس اینڈ سروسز میر ہزار خان بجارانی نے کہا ہے کہ ہمارے ملک میں آجکل دہشت گردی کی لہر آئی ہوئی ہے، جس کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں ایک بار پھر سندھیوں کی روایتی امن پسندی ، تحمل و برداشت اور بھائی چارے کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ گزشتہ روز سندھ مدرسة الاسلام یونیورسٹی کی جانب سے منعقدہ سہ روزہ عالمی سیمینار ”سندھ صدیوں سے“ کے پہلے ٹیکنیکل سیشن سے خطاب کررہے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سندھ سے متعلق محققین اور ماہرین نے بہت کام کیا ہے، ہمیں ان کا کام پڑھنا اور دیکھنا چاہیے ، سندھ نے برصغیر کی تاریخ میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے، سندھی قوم کی بہادری ماقبل تاریخ سے مشہور ہے اور انہوں نے سکندر اعظم کی افواج کے بھی دانت کھٹے کیے تھے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اس وقت یہ ضروری ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو یہ بتایا جائے کہ سندھ کا ماضی کیا تھا، اور آج ہمارا سندھ کیا بن چکا ہے، ہمارے نوجوانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ہماری دھرتی ہے اور ہمیں ہی اس کا خیال رکھنا چاہیے۔

اس سے پہلے سیمینار میں امریکی اسکالر جوناتھن مارک کینیوئر ، شاہ لطیف یونیورسٹی خیرپور کی سابقہ وائس چانسلر ڈاکٹر نیلوفر شیخ، میجی یونیورسٹی ٹوکیو کے ڈاکٹر آتسوشی نوگوچی ، بوسٹن یونیورسٹی کے ڈاکٹر محمد رفیق مغل نے بھی اپنے مقالے پیش کیے۔جوناتھن مارک کینیوئرنے اپنے خطاب میں کہاکہ قدیم سندھو تہذیب کے دور کے دوران ہڑّپہ سمیت سندھو کے دیگر شہروں میں دھات سے بنی اشیاء، چینی مٹی کی چیزیں، زیورات، کپڑے اور تحریروں سمیت دیگر اشیاء بہت ہی معیاری ہوتی تھیں، جن کا اقتصادی، سیاسی طور پر کلیدی کردار رہا ہے۔

کینوئر جو کہ امریکہ کی وسکونسن یونیورسٹی کے اینتھرا پولاجی ڈیپارٹمنٹ میں پروفیسر ہیں، ا نہوں نے سندھ مدرسة الاسلام یونیورسٹی کی جانب سے تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس ”سندھ صدیوں سے“ کے پہلے تکنیکی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا، یہ اپنی نوعیت کی دوسری کانفرنس ہے، جس کا انعقاد 39برسوں کے بعد دوبارہ کیا جا رہا ہے۔ سب سے پہلے یہ کانفرنس 1975میں اس وقت کے وزیر اعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو نے منعقد کی تھی۔

اپنے مقالے میں امریکی ماہر نے کہا کہ پاکستان کے آثار قدیمہ ہڑاپا، موہن جو دڑو ،لاکھین جو دڑو اور بھارتی شہر گجرات کی سائٹ ڈھولاویرا سے ملنے والی مہروں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان سب میں کافی مماثلت ہے ،جس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سندھو تہذیب کے ان شہروں، سندھ، پنجاب، بلوچستان اور بھارتی گجرات کے درمیان قریبی تجارتی مراسم تھے۔

،انہوں نے مذ کورہ اشیاء میں استعمال کئے گئے خام مال اور تیار شدہ مال کی نقل و حرکت کا پتہ لگانے سے متعلق ہونے والی تحقیق پر بھی روشنی ڈالی ۔انہوں نے کہا کہ وادی سندھ اور ملحقہ علاقوں میں دریائے سندھ کے تاجروں اور کاریگروں کی تیار کردہ اشیاء میں تجارت کی حد تک ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں کے ملحقہ علاقوں میں اہم دریافتیں دی گئیں۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انڈس تجارت نے صرف اس خطے میں اپنی صلاحیتوں کا سکہ جمایا بلکہ تجارت کا یہ سلسلہ عمان اور خلیج ، گریٹر میسوپوٹامیا ( عراق اور ایران ) اور وسطی ایشیا تک پھیل گیا۔

مقالے میں کہا گیا ہے کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ انڈس تجارت اور اس خطے کی شاندا ر تہذیبی اقدار پر مزید تحقیق کی جائے۔ اپنے مقالے ”دریا اور صحرا کے درمیان“ امریکی اسکالر نے کہا ہے کہ ناقابل یقین انسانی تاریخ کے اندر لاکھوں سال سے سندھ کو بہت اہمیت حاصل رہی ہے۔ میجی یونیورسٹی ، ٹوکیو ، جاپان ، کے آثار قدیمہ تحقیقاتی یونٹ کے محقق Atsushi Noguchi نے اپنی تحریر میں کہا ہے کہ قدیم تاریخی دور سے سندھ کا تہذیب کے لحاظ سے کلیدی کردار رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ انسانی تاریخ میں 1.5 ملین سال سے ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ دنیا میں قدیم ترین تصور کیے جانے والے پتھر کے ہتھیار Handaxes اور cleavers ، روہڑی ہلز سے ملے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ، 1.5 ملین سال پہلے افریقی ایشیائی خطوں کے درمیان تجارتی راستے تھے۔ ان آثاروں سے ہمیں یوریشیا میں افریقہ کے hominids کے ابتدائی مائیگریشن " کے راستے کا پتہ چلتا ہے ، انہوں نے کہا کہ پاکستان اور جاپان کے اداروں کی مدد سے ایک مشترکہ تحقیق کا منصوبے چل رہا ہے، جہاں صحرائے تھر کی Veesar ویلی سے دیافت ہوا ہے، جس سے دنیا کی قدیم ترین تہذیب سے متعلق مزید معلومات فراہم ہوگی۔

ان کے مطابق قدیم پتھر کے دور میں انسانوں نے اقتصادی طور پر تین راستے اختیارکیے تھے۔ تھر کے مغربی حصے میں واقع نمکین دھوبی جھیل سے مائیکرو بلیڈٹیکنالوجی کے استعمال کے شواہد بھی ملے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں بھی اس دور میں لوگ جب شکار کرتے تھے تو وہ مائیکرو بلیڈ ٹیکنولوجی کے ہتھیار استعمال کرتے تھے۔ ان ممالک میں جو ہتھیار ہیں ،ان سے لگتا ہے کہ تھر میں بھی اسی طریقے سے ہتھیار بنائے جاتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ تحقیق کے مطابق انسانوں کی جانب سے سمندری ماحول میں رہنے کی ابتدا ستر ہزار سے ایک لاکھ سال قبل افریقہ سے ہوئی۔ یہ سلسلہ بعد ازاں قدیم پتھر کے دور تک بحیرہ روم کے علاقے تک پھیلتا رہا۔ یہ بھی امکان ہے کہ کراچی سے مکران کوسٹ تک انسانوں کی آبادی بھی بہت قدیم ہے۔اپنے مقالے ”انڈس ویلی ہیری ٹیج ڈھولا ویرا“ میں بھارتی رٹائرڈ پروفیسر ڈاکٹر جیٹھو لعلوانی نے کہا کہ بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں جب موہن جو دڑو کی کھدائی کا کام شروع کیا گیا تو سندھ تہذیب کی قدیم ترین اور زرخیز تاریخ کے آثار نمودار ہوئے۔

سندھو ویلی تہذیب نے ماہرین کو مجبور کیا کہ وہ انسانی تہذیب کی نئی تاریخ لکھیں۔ انہوں نے کہا کہ انڈس تہذیب کے حوالے سے جو اہم سائٹس ملی ہیں ،ان میں موہن جو دڑو، ہڑپہ، گینری ولا، راکھی گڑھی، کالی بھاگن، روپا نگر، لوتھل اور ڈھولاویرا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تقسیم ہند کے بعد کی گئی کھدائی میں ڈھولا ویرا کی کھدائی کی گئی جو کہ اہمیت کی حامل ہے۔

یہ تقریبا 48 ہیکٹر ہیں آباد کیا گیا تھا ، شہر کی ساخت کی بہترین مثال راج محل ہے ،جس کے علاوہ میں اس شہر میں ، گھروں کو بھی منصوبہ بندی کے ساتھ تعمیر کیا گیا تھا ۔ یہاں بھی موئن جو دڑو کی طرح بڑی اور کشادہ سڑکیں۔پکا کنواں ، تالاب اور نکاسی آب کی سہولیات میسر تھیں۔سابق وائس چانسلر شاہ عبداللطیف یونیورسٹی ، خیرپور ڈاکٹر نیلوفر شیخ نے اپنے مقالے میں تاریخی دور سے قبل انسان کے ایک گاوٴ ں کی صورت میں قیام کرنے کے تصور کا ذکر کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ انڈس تہذیب کے آثاروں سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہاں سب سے پہلے گوٹھ آباد کرکے رہنے کا تصور پیش کیا گیا۔ امریکہ کی بوسٹن یونیورسٹی میں آثار قدیمہ کے شعبہ میں پروفیسر محمد رفیق مغل نے قدیم تایخ کے دور سے اسلامی ادوار تک سندھ کے آثار قدیمہ ورثہ کا ایک جائزہ پیش کیا ۔ انہوں نے خاص طور پر پوسٹ نوآبادیاتی دور سے 1947ء تک سندھ کے آثار قدیمہ کے اہم پہلووٴں پر روشنی ڈالی ۔

متعلقہ عنوان :