مدارس کیخلاف کوئی اقدام کیا گیا تو بھرپور انداز میں مدارس کے علماء، طلباء اور مسلمان مدارس کا دفاع کرینگے، اکابر علماء کی حکومت کو تنبیہ ،مدارس اپنے نصاب میں آئے روز جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اصلاحات اور تبدیلی کرتے ہیں، حکومت کو عصری تعلیمی اداروں پر بھی توجہ دینی چاہئے،پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے اصل محافظ مدارس اور علماء ہی ہیں، نظریہ پاکستان کو محفوظ رکھنے میں مدارس کا سب سے بڑا کردار ہے ،مدارس عمارت کا نہیں استاد اور شاگرد کے باہمی تعلق کا نام ہے ،مغربی قوتیں اور انگریز ختم نہیں کرسکے نہ ہی آئندہ ختم کرسکیں گے،مدارس کیخلاف سازش عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے، آئین کو نہ ماننا جتنا بڑا جرم ہے اتنا ہی بڑا جرم آئین پر عمل نہ کرنا ہے، عظمت مدارس دینیہ اور پیغام امن کانفرنس سے مختلف علماء اور مذہبی جماعتوں کے قائدین کا خطاب

اتوار 23 مارچ 2014 18:49

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔23مارچ۔2014ء) مختلف مذہبی جماعتوں کے قائدین اور جید اکابر علماء نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ مدارس کے خلاف اگر کوئی اقدام کیا گیا تو بھرپور انداز میں مدارس کے علماء، طلباء اور مسلمان مدارس کا دفاع کریں گے، مدارس کے خلاف سازش عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے، آئین کو نہ ماننا جتنا بڑا جرم ہے اتنا ہی بڑا جرم آئین پر عمل نہ کرنا ہے، مدارس اپنے نصاب میں آئے روز جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اصلاحات اور تبدیلی کرتے ہیں، حکومت کو چاہئے کہ وہ عصری تعلیمی اداروں پر بھی توجہ دے، پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے اصل محافظ مدارس اور علماء ہی ہیں، نظریہ پاکستان کو محفوظ رکھنے میں مدارس کا سب سے بڑا کردار ہے ، مدارس عمارت کا نام نہیں بلکہ استاد اور شاگرد کے باہمی تعلق کا نام ہے جس کو مغربی قوتیں اور انگریز ختم نہیں کرسکا اور نہ ہی آئندہ ختم کرسکیں گے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو جامعہ دارالعلوم کراچی میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے زیر اہتمام عظمت مدارس دینیہ اور پیغام امن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس کی صدارت وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سربراہ شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان نے کی جبکہ کانفرنس سے مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی، شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر، جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، اہل سنت والجماعت پاکستان کے سربراہ، مولانا محمد احمد لدھیانوی، جے یو آئی کے رہنما مولانا حافظ حسین احمد، وفاق المدارس کے سیکریٹری قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا حق نواز، مولانا ادریس، مولانا سعد یوسف، مولانا قاضی محمود الحسن اشرف، مولانا عدنان کاکا خیل، مولانا اسفند یار خان اور دیگر نے بھی خطاب کیا جبکہ کانفرنس میں ملک بھر سے اکابر علمائے کرام نے شرکت کی جن میں مولانا مفتی عبدالرحیم، وفاقی وزیر مولانا عبدالغفور حیدری، مفتی ابوہریرہ محی الدین، قاضی عبدالرشید اور دیگر شامل تھے۔

کانفرنس میں گزشتہ 10 سال کے دوران وفاق اور صوبے کی سطح پر نمایاں کارکردگی حاصل کرنے والے ساڑھے 4 سو سے زائد طلباء وطالبات میں انعامات واسناد تقسیم کئے گئے۔ مفتی محمد رفیع عثمانی نے کہا کہ مدارس نے ہمیشہ اپنے نصاب میں تبدیلی کی ہے اور وقت کے ساتھ سے تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ لوگ مدارس میں بدامنی قرار دیتے ہیں مگر عصری تعلیمی اداروں کے مقابلے میں کوئی ایک مثال پیش نہیں کی جاتی۔

مدارس امن کا گہوارہ ہیں۔ یہاں دنیا بھر کے طلباء وطالبات دین کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان میں کوئی تفریق نہیں ہے۔ ہم نے عصری تعلیم کے خلاف کبھی بات نہیں کی بلکہ خود بیشتر مدارس میں دین کے ساتھ دنیاوی تعلیم بھی دی جارہی ہے۔ انہوں نے علمائے کرام کو ہدایت کی کہ وہ تعلیمی اصلاحات پر مزید توجہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ مدارس سے فارغ ہونے والوں میں نہ صرف علماء، مفسر، آئمہ سامنے آتے ہیں بلکہ یہاں سے انجینئر اور ڈاکٹرز بھی بنتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مدارس کا ماحول جدید دور کے تقاضوں کے مطابق معیاری اور اعلیٰ ہے۔ مفتی محمد تقی عثمانی نے کہا کہ مدارس کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ مدارس کے خلاف اگر کوئی اقدام ہوا تو ہر ممکن اس کا دفاع اور تحفظ کیا جائے گا اور ہم مرتے دم تک اپنی اس جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پروپیگنڈوں کے باوجود مدارس قائم ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔

کوئی طاقت ان کو ختم نہیں کرسکتی۔ مدرسہ کسی عمارت کا نام نہیں بلکہ یہ استاد اور شاگرد کے باہمی تعلق کا نام ہے۔ جہاں بھی جگہ ملے گی علماء دین کی خدمات انجام دیتے رہیں گے۔ دنیا کی کوئی طاقت استاد اور شاگرد کے تعلق کو ختم نہیں کرسکتی۔ انہوں نے کہا کہ مدارس کے نصاب میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق چیزیں شامل ہیں۔ وفاق المدارس ایک عظیم چھتری ہے، جس کے نیچے مختلف الخیال جماعتیں اور رہنما بیٹھ کر فیصلے کرتے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر نے کہا کہ مدارس میں وحی کے علوم پڑھائے جاتے ہیں اور یہی علوم ہماری بقاء کا ذریعہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر دین نہ ہوتا تو آج پاکستان بھی نہ ہوتا۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ آئے روز حکومتیں مغرب کے اشارے پر مدارس کے حوالے سے نئی نئی پالیسیاں بناتی ہے۔ 1994ء سے 2004ء تک مدارس کی رجسٹریشن پر مکمل پابندی تھی۔

وفاق ہائے مدارس اور حکومت کے تعاون سے نیا قانون بنا، جس کے تحت مدارس کی رجسٹریشن کی گئی۔ انہوں نے سوال کیا کہ اب اس مسئلے کو دوبارہ کیوں اٹھایا جارہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کہیں اسلام اور پاکستان دشمن قوتیں موجود ہیں جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حالات اچھے نہیں ہیں۔ دنیا نے طے کیا ہے کہ مدارس کے حوالے سے کچھ کیا جائے لیکن ہم نے بھی طے کیا ہے کہ ہم مدارس کا ہر محاذ پر تحفظ کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ آج آئین کی بات کی جاتی ہے۔ جتنے بڑے مجرم آئین کو نہ ماننے والے ہیں اتنے ہی بڑے مجرم آئین پر عمل نہ کرنے والے بھی ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات 40 سال سے پارلیمنٹ میں پیش نہیں کی جارہیں۔ مولانا احمد لدھیانوی نے کہا کہ حکومت مدارس کی آزادی کو چھیننے کی کوشش کررہی ہے اور بعض قوتیں مدارس کو ختم کرنا چاہتیں۔ ہم ان کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ دشمن کی گولیاں اور بم دھماکے گزشتہ دو دہائیوں سے کراچی میں مدارس کی راہ میں رکاوٹ بن سکے اور نہ ہی اب حکومتی اقدام رکاوٹ بنیں گے۔

انہوں نے کہا کہ مدارس کا ہر ممکن تحفظ کریں گے۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک میں مدارس عربیہ کی بھیک مانگنا افسوسناک ہے۔ پاکستان جس نظریے کے تحت بنا اس کے حقیقی محافظ علماء، طلباء اور مدارس ہی ہیں اور یہی لوگ نظریہ پاکستان کے محافظ بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں میں علماء اور طلباء کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ قاری حنیف جالندھری نے کہا کہ مدارس کے خلاف ہونے والی سازشوں کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا اس حوالے سے ملک کے مختلف حصوں میں اسی طرح کے بڑے اجتماعات منعقد کئے جاتے رہیں گے۔

کانفرنس میں 17 مختلف قراردادیں منظور کی گئیں۔ ایک قرارداد میں طالبان اور حکومت کے مابین مذاکرات کا خیر مقدم کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ مذاکرات کو بامقصد اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے پارلیمنٹ کی منظور کردہ قراردادوں اور قبائل کے جرگے میں طے شدہ امور کو مدنظر رکھا جائے۔ مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے خواتین اور بچوں کی فوری رہائی ممکن بنائی جائے۔ امریکہ اور نیٹو سے گزشتہ 12 سالوں میں پاکستان کو نقصانات کے ازالے کا مطالبہ کیا جائے اور ڈرون حملوں میں جاں بحق ہونے والے افراد کے ورثاء کو دیت ادا کی جائے۔ مدارس کی سند کو دیگر ڈگریوں کے مساوی تسلیم کیا جائے۔

متعلقہ عنوان :