بلوچستان اسمبلی کااجلاس مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوا،اسمبلی میں تین قراردادیں متفقہ طورپر منظور

جمعرات 20 مارچ 2014 21:49

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔20مارچ۔2014ء) بلوچستان صوبائی اسمبلی کا اجلاس دو روز ہ وقفے کے بعد جمعرات کے روز ڈپٹی اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کی صدارت میں ایک گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا اجلاس میں تین قرار دادیں متفقہ طور پر منظور کی گئی پہلی قرار داد نمبر8جمعیت علماء اسلام کے رکن صوبائی اسمبلی مفتی گلاب خان کاکڑ نے ایوان میں پیش کی انہوں نے قرار داد میں کہا تھا اغبرگ جو 19کلیوں پر مشتمل ضلع کوئٹہ کا ایک حصہ ہے لیکن اس دور جدید میں بھی گیس جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے جس کی وجہ سے وہاں کے عوام احساس محرومی کا شکار ہے لہذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وفاقی حکومت سے رجوع کریں اغبرگ یونین کونسل کو فوری طور پر گیس کی فراہمی کیلئے اقدامات اٹھائے جوکہ وہاں کے عوام کا دیرینہ مطالبہ بھی ہے ایوان نے متفقہ طور پر ان کی قرارداد منظور کرلی مفتی گلاب خان کاکڑ نے کہاکہ اس جدید دور میں بھی کوئٹہ جیسے دارالحکومت کے کلی میں جو ضلع کوئٹہ کا حصہ ہے گیس نہ ہونا افسوسناک بات ہے ہم نے اس بارے میں کئی بار اعلیٰ حکام سے ملاقات کی ہے اور انہیں بتایا ہے کہ مگر انہیں ہماری کسی بھی درخواست پر کوئی توجہ نہیں دی امید ہے کہ ایوان میں قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی ہے اور اب اس علاقے میں گیس کا مسئلہ حل ہوگا مشترکہ قرار داد نمبر20جو مسلم لیگ ن کے رکن صوبائی اسمبلی سردار صالح بھوتانی طاہر محمود راحیلہ حمید خان درانی فتح محمد بلیدی اور ڈاکٹر شمع اسحاق نے ایوان میں پیش کی تھی قرار داد میں صوبائی حکومت سے سفارش کی گئی تھی کہ صوبے میں تمام پرائیوٹ کمپنیوں بینکوں اور موبائل کمپنیوں کو این او سی جاری کرتے وقت مقررہ 70فیصد کوٹے پر عمل کرانے کی سختی سے عملدرآمد یقینی بنایا جائے نیز حب شہر جو صنعتی لحاظ سے ایک تجارتی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے اور وہاں پر مذکورہ کمپنیوں نے مقامی نوجوان کو مقررکردہ کوٹے پر ملازمت دیں تاکہ ہنر بند اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع میسر ہوسکیں سابقہ نگران وزیراعلیٰ اور مسلم لیگ ن کے رکن صوبائی اسمبلی سردار صالح بھوتانی نے مشترکہ قرار داد نمبر20کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہاکہ صوبے میں تمام پرائیوٹ کمپنیوں بینکوں اور موبائل کمپنیوں کو جب این او سی جاری کیا جاتا ہے تو انہیں اس بات کا پابند کیا جائے کہ مقامی لوگوں کو 70فیصد کوٹے پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے کیونکہ بلوچستان میں بے روزگاری عام ہے بلوچستان میں پڑھے لکھے نوجوان ڈگریاں لیکر ملازمتیں حاصل کرنے کی کوششیں کررہے ہیں مگر کامیاب نہیں ہوسکتے اگر صوبائی حکومت ان کمپنیوں کو اس بات کی پابند کریں کہ ہنر مند اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع میسر ہوسکیں گے تو بلوچستان میں بہت سے لوگوں کو روزگار ملے گا ایوان نے طویل بحث کے بعد قرار داد کو متفقہ طور پر منظور کرلیا ایوان میں قرار داد نمبر24جمعیت علماء اسلام کی رکن صوبائی اسمبلی حسن بانو رخشانی نے ایوان میں قرار داد پیش کرتے ہوئے کہاکہ صوبائی حکومت سے سفارش کی جاتی ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ بلوچستان کی مخدوش صورتحال معاشی اور تعلیمی پسماندگی کی وجہ سے نوجوانوں کی اکثریت سی ایس ایس کے امتحان میں شمولیت کیلئے عمر کی موجودہ بالائی حد 28سال مقرر ہے پر پورا نہیں اترتے جس کی وجہ سے وہ اعلیٰ سول سروس مقابلے کے امتحانات میں شمولیت سے محروم رہتے ہیں لہذا صوبہ بلوچستان کی پسماندگی اور مخصوص باسازگار حالات کے پیش نظر صوبہ ککے نوجوانوں کی اعلیٰ سول سروس میں شمولیت کی عمر کی بالائی حد 28سال سے بڑھا کر 35سال مقرر کی جائے تاکہ بلوچستان کے تعلیم یافتہ اور ذہین نوجوانوں کو اپنے صوبے کے کوٹہ کے مطابق ملازمتیں مل سکیں اور ان میں پھیلی ہوئی بے چینی اور احساس محرومی کو دور کرنے کا ازالہ ہوسکے ۔

(جاری ہے)

محترمہ حسن بانو رخشانی نے قرار داد کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہاکہ بلوچستان ایک پسماندہ صوبہ ہے اس لئے نوجوانوں کی اعلیٰ سول سروس میں شمولیت کیلئے عمر کی بالائی حد 28سال سے بڑھا کر35سال مقرر کی جائے تاکہ پڑھے لکھے نوجوانوں کو ملازمتیں مل سکیں اور جو اس وقت بیروزگار ہے ان کی بیروزگاری ختم ہو اور احساس محرومی ختم ہو ۔

متعلقہ عنوان :