مقامی عسکریت پسندوں سے بات چیت کا عمل پاکستان کاخالصتا اندورنی معاملہ ہے ،برطانوی سفیرفلپ بارڈن،پاکستان داخلی سلامتی کیلئے کئے جانیوالے تمام اقدامات میں آزاد ہے، حکومت پاکستان کی کیساتھ مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں، امید ہے موجودہ حکومت کی ان کاوشوں کے نتیجے میں شدت پسندی سے بری طرح متاثر ہ پاکستان میں قیام امن کی کوششوں کو تقویت ملے گی،طالبان کی جانب سے اعلان کردہ فائر بندی کوافغانستان میں ہونیوالے صدارتی انتخاب کے عمل سے کسی صورت جوڑا نہیں جاسکتا ہے ،پریس کانفرنس سے خطاب

بدھ 19 مارچ 2014 20:51

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔19مارچ۔2014ء) برطانیہ کا پاکستان میں سفیر فلپ بارڈن نے کہاہے کہ مقامی عسکریت پسندوں سے بات چیت کا عمل پاکستان کاخالصتا اندورنی معاملہ ہے ۔ خودمختار ملک کی حیثیت سے پاکستان داخلی سلامتی کیلئے کئے جانے والے تمام اقدامات میں آزاد ہے،ہم حکومت پاکستان کاطالبان کیساتھ مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں اوریہ خوش آئندبات ہے کہ پاکستان کی سیاستی اورعسکری قیادت کامستحکم افغانستان کیلئے متفق ہے۔

وہ اسلام آبادمیں افغانستان میں تعینات برطانوی سفیر سر رچرڈ سٹیج کے ہمراہ ایک مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب کررہے تھے ۔انہوں نے کہا کہ اگرپاکستان کی حکومت مذاکرات ہی کو دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کے لئے ضروری سمجھتی ہے تو اس عمل کو اختیار کرنے میں مذائقہ نہیں اور اگرمستقبل میں کسی مرحلے پر اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے طاقت استعمال کی جائے گی تو اس صورت میں بھی یہ فیصلہ حکومت پاکستان کا حق ہے ۔

(جاری ہے)

برطانوی نمائندوں نے پاکستان کی نئی قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل اور اس تسلسل میں دیگر سیکورٹی اقدامات کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا کہ امید ہے کہ موجودہ حکومت کی ان کاوشوں کے نتیجے میں شدت پسندی سے بری طرح متاثر ہ پاکستان میں قیام امن کی کوششوں کو تقویت ملے گی ۔انہوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ طالبان کی جانب سے اعلان کردہ فائر بندی کوافغانستان میں ہونے والے صدارتی انتخاب کے عمل سے کسی صورت جوڑا جاسکتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں آئندہ صدارتی انتخابات کے لئے تمام تر تیاریاں مکمل ہیں اور بظاہر ایسا معلوم ہورہا ہے کہ آئندہ ماہ ہونے والے ان انتخابات کا انعقاد باآسانی ممکن ہوجائے گا ۔ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ کی خواہش ہے کہ آنے والے افغان صدارتی انتخاب شفاف اور منصفانہ ہو اور اس کے نتیجے میں افغان عوام کو نمائندہ قیادت میسر آسکے ۔

اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کابل میں تعینات برطانوی سفیر سر رچرڈ سٹیج نے کہا کہ یہ امر خوش آئند ہے کہ افغانستان میں موجود متحارب طاقتیں جمہوری عمل کی تسلسل کے حوالے سے اختلافات کی شکار ہیں جبکہ افغان طالبان کے ساتھ مفاہمتی عمل نے بھی عسکریت پسندوں کی صفیں کمزور کردی ہیں ‘انجینئرگلبدین حکمتیار کی حزب اسلامی کے کئی لوگ پہلے ہی سے سیاسی عمل کا حصہ بن کر افغان پارلیمان میں کردار ادا کرچکے ہیں جبکہ حزب اسلامی سے وابستہ رہنے والے کئی ایک افرادآئندہ صدارتی انتخابات میں بھی براہ راست حصہ لے رہے ہیں جس سے صدارتی انتخابات کے نتائج کے مستند ہونے کے امکانات بڑھے ہیں ۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ ملا محمد عمر کی قیادت میں سرگرم جنگجوؤں کی دھمکیوں اور مخالفت کیو جہ سے صدارتی انتخابات جزوی طورپر متاثر ہو نے کے خدشات موجود ہیں تاہم آج کا افغانستان ماضی سے کافی مختلف ہے انہوں نے کہا کہ موجودہ افغانستان کا سیاسی وجود 90 ء کی دھائی کٹھ پتلی حکومتوں جیسا نہیں ‘اس وقت افغان نیشنل آرمی اور دیگر سکیورٹی فورسز مکمل طورپر فعال ہے جبکہ عالمی برادری بھی استحکام افغانستان کے لئے کوشاں ہے اس لئے یہ کسی کے لئے اتنا آسان نہیں کہ یہاں کے عوام کی خواہشات کے برعکس اپنی مرضی مسلط کر سکے ۔

سررچرڈ سٹیج نے تسلیم کیا کہ منشیات کی سمگلنگ اور کالے دھن کے نتیجے میں افغان صدارتی عمل کی شفافیت متاثر ہوسکتی ہے لیکن اطمینان کی بات یہ ہے کہ افغان الیکشن کمیشن اوراہم امیدواراس نکتے پر نظرجمائے بیٹھے ہیں ۔ایک سوال کے جواب میں اسلام آباد میں تعینات برطانوی نمائندے فلپ بارڈن نے کہا کہ برطانیہ کا خطے میں کوئی ”فیورٹ“ ملک نہیں بلکہ پاکستان سمیت تمام ممالک کے ساتھ دوطرفہ اور باہمی دوستانہ تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے سفارتی عمل کو آگے بڑھایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان دیرینہ اور بامقصد تعلقات ہیں جبکہ تعلیم ‘صحت اور تجارت کے شعبے میں بھی دونوں ممالک کے درمیان وسیع تر رابطے موجود ہیں تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ افغانستان کے مقابلے میں پاکستان کوزیادہ فوقیت مل رہی ہے ۔ایک اور سوال کے جواب میں سر رچرڈ سٹیج نے انکشاف کیا کہ حامد کرزئی نیٹو کے ساتھ سیکیورٹی معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے البتہ نئے منتخب افغان صدراس سیکورٹی معاہدے کی توثیق ضرور کریں گے انہوں نے کہا کہ مذکورہ معاہدے پر دستخط اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ یہ امر شگاگو کانفرنس کے نتیجے میں طے شدہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے پر دستخط سے نیٹو اور ایساف کو مستقبل میں افغانستان کی سیکیورٹی معاملات میں مدد فراہم کرنے میں آسانی ہوگی جبکہ معاہدہ عملی ہونے کے بعد افغان سیکیورٹی فورسز کو سالانہ 4 ارب ڈالر سالانہ امداد ملنے کے لئے بھی راہ ہموار ہوجائیگی ۔

متعلقہ عنوان :